انتخابات اور رائے دہندگان
الطاف حسین جنجوعہ
7006541602
انتخابات کا موسم بھی بڑا عجیب ہوتا ہے ، جس میں الیکشن لڑنے اور لڑانے والوں کو سردی، گرمی ، بھوک پیاس کا احساس ہی نہیں ہوتااور نہ ہی امیری غریبی کا کوئی فرق نظر آتا ہے۔ اُنہیں سب برابر نظر آتے ہیں۔انتخابات سے ڈیڑھ دو ماہ قبل کا زیادہ دلچسپ ہوتا ہے اور یہ ایام اِس وقت جموں وکشمیر میں چل رہے ہیں۔ آپ بغور مشاہدہ کریں اور مثبت پہلو پر غور کریں تو آپ کو الیکشن کے دوران ’انسانیت‘کی جھلک بھی نظر آئے گی۔وہ علاقہ جات جہاں اُمیدوار عام حالات میں کبھی جا نا پسند ہی نہیں کرتے، وہاں بھی جاتے ہیں لیکن الیکشن کے دوران اِ ن علاقوں کا دورہ کرنا اُمیدواروں کی پہلی ترجیحی رہتا ہے۔ خوشی غمی کے موقعوں کو تو کسی صورت میں ہی نہیں چھوڑاجاتا، آج کل شادی بیاہ ودیگر سماجی تقریبات میں تو اُمیدوار اور اُن کے خاص حمایتی جانا ہر گز ہرگز نہیں بھولتے ، چاہئے کوئی بلا ئے یا نہ بلائے۔ کیونکہ وہاں پر لوگ جمع ہوتے ہیں اور اُن کے لئے زیادہ لوگوں سے ملنا آسان ہوجاتاہے۔ مساجد خاص طور سے جومرکزی مساجد ہیں، میں بھی اِن لوگوں کی تعداد بڑھ گئی ہے اور وہاں بھی محتاط انداز سے ہی سہی مگر الیکشن مہم تو کر ہی دیتے ہیں۔ پہلے ہم جب کسی محلہ، گاو¿ں ، راستہ یا بازار سے گذرتے تو جوخاص اُن خاص ہوسے ہی علیک سلیک کرتے ، باقی دیکھ بھی نظر انداز کردیتے تھے کہ وقت ضائع ہوگا۔ لیکن آج کل کیا مجال ہے کہ وہ کسی کو نظر انداز کریں، جتنا مرضی وقت لگ جائے ہر ایک کو بڑی خندہ پیشانی کے ساتھ حال چال پوچھتے ہیں۔ گاو¿ں میں بھی یہ لوگ بلالحاظ مذہب وملت، رنگ ونسل ، ذات پات، امیروغریب ہر ایک گھر جانا چاہتے ہیں، اُن کے ساتھ بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔
گاو¿ں میں جو علیل ہیں، جن کی کل تک ہمیں خبر تک بھی نہ تھی کہ وہ کس حال میں ہیں لیکن الیکشن کے وقت تو آج اُن گھروں میں تیمارداری کرنے والوں کی چہل پہل ہے۔الیکشن کے اِس دلچسپ وقت میں ہمیں اپنے رشتہ دار، دوست واحباب، اپنی برادری کے لوگ، اپنے پیشہ سے جڑے افراد، ہم جماعت، ہم پیشہ سب سے ہم ملاقات کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ وہ بھی ہماری مدد کردیں۔ حتیٰ کہ کوئی نہ کوئی طریقہ تلاش کیاجاتا ہے تاکہ اِس سے تعلق قائم ہو اور اُس کی حمایت حاصل کر لی جائے ۔ اگر چہ دل میں ذات برادری یا دیگر نظریاتی اختلافات کو لیکر ہمیں دل میں آج بھی ایکدوسرے کیلئے بغض ،کینہ، حسد اور تعصب ہے ، لیکن اُس کو بھی اپنے ’قول وفعل ‘سے وہ اِن نازک ایام کے دوران ظاہر نہیں ہونے دیتے۔
ہمارا دین ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ آپ کسی میں امتیاز نہ کریں، سب کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔ غریبوں اور مالی طور کمزوروں کو نظر انداز نہ کریں، حقارت سے نہ دیکھیں۔پڑوسیوں، اہل محلہ، اہل گاو¿ں اور علاقہ کے لوگوں کا حال چال پوچھا کریں، بیماروں کی تیمارداری کیا کریں۔ خوشی غمی کی تقریب میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔اپنے اخلاق اچھے رکھیں۔ گفتگو کے دوران مہذب ، شائستہ الفاظ اور نرم لہجہ اختیار کریں، دوسروں کی بات کو اچھی طرح سُنیں اور معقول جواب دیں۔ مصیبت میں دوسروں کے کام آئیں، وغیرہ وغیرہ اور یہ ساری چیزیں الیکشن کے دوران نظر آتی ہیں اور ایسے مواقعوں کی تلاش کی جاتی ہے تاکہ دیگر لوگوں کی بھی ہمدردیاں ہمارے ساتھ ہوجائیں۔ الیکشن کے دوران لیڈران کے رویہ میں آئی اِس غیر معمولی تبدیلی پر آپ ذرا غور کریں، ایسا کیوں ہے، کیونکہ اصل میں سب کچھ عام لوگ ہی ہیں، اِن لیڈران کی شان، بان ، آن اور پہچان صرف آپ کی ہی بدولت ہے۔ آپ کے بغیر یہ کچھ نہیں۔
ایک آنسو بھی حکومت کے لیے خطرہ ہے
تم نے دیکھا نہیں آنکھوں کا سمندر ہونا
منور رانا
اس دلچسپ صورتحال دوران ایک ذمہ دار شہری کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ رائے دہندگان کو ووٹ کی اہمیت بتائیں، اُنہیں یہ بیدار کریں کہ ووٹ کسی مقصد کے لئے دیاجارہا ہے اور جس کو دیاجارہا ہے ، اُس کے پاس منتخب ہونے کے بعد آپ کے معاملات کو حل کرنے کے کتنے اختیارات ہیں اور وہ کیا کیا کرسکتا ہے۔ چونکہ جموں وکشمیر میں ’مجوزہ ضلع ترقیاتی کونسل کے علاوہ ضمنی پنچایتی وبلدیاتی انتخابات کے لئے مہم زوروں پر ہے، اس لئے سماج کے ذی شعور افراد کے کندھوں پر ایک عام ووٹرکی رہنمائی کرنے کی بھی ذمہ داری ہے ۔گاو¿ں دیہات سطح پر سرکاری ملازمین کو کافی اہمیت حاصل رہتی ہے اور اُن کی سُنی بھی جاتی ہے۔ خاص طور سے انتظامیہ کے سنیئر افسر ان اور اُساتذہ کا رائے عامہ ہموار کرنے یعنی کہ Public Opinionبنانے میں اہم رول رہتا ہے۔ اُساتذہ طبقہ کافی معتبر ماناجاتا ہے ، اس لئے لوگ اُن کی باتوں پر جلد عمل بھی کر لیتے ہیں۔ ہمیشہ سے سرکاری ملازمین کا انتخابات میں بڑا عمل دخل رہتا ہے ، یہ کہاجائے تو مبالغہ آرائی نہ ہوگی کہ دیہات میں اُمیدواروں کی جیت ہار طے کرنے میں ایک بڑا حصہ انہیں کا ہوتا ہے۔ عصرِ حاضر میں اُساتذہ ، پنچایت سیکریٹری اور جی آر ایس انتخابی مہم میں بڑا رول ادا کر رہے ہیںاور اُمیدواروں کی کوشش رہتی ہے کہ ان کا بھر پور استعمال کیاجائے۔ پہلے تو سرکاری ملازمین کا انتخابات میں اس طرح عمل دخل کسی صورت میں درست ہی نہیں ، اگر وہ رول ادا کرتے ہیں وہ کسی تو وہ مثبت وتعمیری سوچ کے ساتھ ہونا چاہئے۔
ہمیں یہ بات اچھی طرح سمجھنی ہوگی کہ ڈی ڈی سی انتخابات خالص ضلع سطح پر تعمیر وترقی اور منصوبہ بندی عمل میں عوام کی اُن کے چنے ہوئے نمائندگان کے ذریعے شرکت کو یقینی بنانا ہے تاکہ مرکزی حکومت کی طرف سے مختلف ترقیاتی پروجیکٹوںاور فلاحی اسکیموں کے تحت واگذار رقومات کا زمینی سطح پر منصفانہ استعمال کیاجائے۔اِ ن انتخابات کا قانون سازی، پالیسی سازی اور جموں وکشمیر کے سیاسی معاملات سے کچھ لینا دینا نہیں۔رائے دہندگان کو چاہئے کہ ’بحیثیت ووٹر ‘اپنے حلقہ میں جتنے بھی اُمیدوار میدان میں ہیں، اُن کو سنیں ، اُن کے منشور کو جانیں تاکہ آپ کی سوچ میں وسعت آئے اور آپ ووٹ ڈالتے وقت بہتر اُمیدوار کے حق میں فیصلہ کرسکیں۔ اس بہبودہ روایت کو ختم کریں کہ اگر آپ ہر ایک سے زیادہ کسی اُمیدوار کے سیاسی جلسہ میں چلے گئے ، اُس کی بات سن لی یا آپ کے محلہ گاو¿ں میں کوئی اُمیدوار آیا ، اُس سے ملاقات کی کہ آپ غدار، منافق یا دل بدلو ہوگئے۔ ایسا ہر گز نہیں، یہ ایک غلط سوچ قائم کی گئی ہے۔ووٹر ہونے کے ناطے یہ آپ کا اختیار ہے کہ آپ بہتر سے بہتر نمائندے کا انتخاب کریں جوآپ کی موثر نمائندگی کرسکے اور ایسا ووٹر تبھی کرسکیں گے جب وہ سبھی کی بات کو سنیں گے، پھر آپس میں اُن کے ماضی، حال کا موازنہ کریں گے۔ ووٹ دینے کا معیار اپنے قبیلہ ، اپنے خاندان، اپنا رشتہ دار، اپنا ساتھی، اپنی ذات ، اپنے مذہب کا ، ہر گز ہرگز نہیں ہونا چاہئے۔
جمہوری نظام ِ حکومت میں ووٹر کا یہ حق ہے کہ آپ کسی بھی سیاسی جماعت، آئیڈیالوجی یاکسی شخص کے ساتھ جُڑیں ، اُس کا ساتھ دیں،یہ فیصلہ کلی طور پر ووٹر کا اپنا ہونا چاہئے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہ ہوکہ رائے دہندگان پہلے ہی سے ایک اُمیدوار کے لئے ذہن بنا کر بیٹھ جائے اور اپنی آنکھیں اور کان بند کرلے۔ اپنے ارد گرد کیا ہورہا ہے، کیوں ہورہا ہے، کیسے ہورہا ہے، کو جاننے کی کوشش نہ کریں۔
انتخابی مہم اور انتخاب کا عمل زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ دو ماہ چلتا ہے،اُس کے بعد سب کچھ معمول پر آجاتاہے۔ووٹر کا فیصلہ جو بھی ہو، کم سے کم اگر کہیں کوئی سیاسی میٹنگ، جلسہ ہوتا ہے یا کوئی اُمیدوار ووٹر کے محلہ، گاو¿ں یا گھر آتا ہے، وہ اُس کو بغور سنیں،اُس سے یہ جاننے کی کوشش کریں کہ اُس کے پاس علاقہ کی ترقی کیلئے کیا سوچ ہے، کیا منشور ہے۔ اگر وہ جیت گیا تو کیا کیا چیزیں اُس کی ترجیحیات میں شامل ہیں، وہ کیا کیا کرسکتا ہے، اگر وہ ہارگیا تو پھر کیا کرئے گا۔ جو اُمیدوار کافی عرصہ سے سیاست میں سرگر م عمل ہیں اور آپ کے پاس اِس سے قبل بھی آتے رہیں ہیں، اُن کو اپنے سابقہ وعدوں کی یادد دہانی بھی کرائیں، یہ بھی سوچیں کہ اُنہوں نے آپ کے لئے کیا کیا، اور کیا کیا وعدے ابھی وفا نہ ہوسکے۔ووٹر اگر Contesting Candidatesکو سنجیدگی سے لیں گے تو پھر وہ رائے دہندگان کے تئیں زیادہ جوابدہ اور سنجیدہ ہوں گے۔ ووٹر ہر اُمیدوار کو سنے، عوامی جلسوں ،سوشل میڈیا اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے آپ تک پہنچنے والے پیغامات کو بھی سنے، دیکھیں، پرکھیں،موازنہ کریں۔اِس سے ووٹر کو اپنے ووٹ کی اہمیت کا احساس ہوگا اور آپ علاقہ کی تعمیر وترقی کے لئے بہتر فیصلہ کرسکیں گے۔
کسی اُمیدوار کو منتخب کرنے کا پیمانہ یہ ہونا چاہئے کہ وہ عوام کی غیر جانبدارانہ طریقہ سے حکومتی وانتظامی سطح پر کس قدر بہتر نمائندگی کرسکتا ہے۔ ضلع ترقیاتی کونسل انتخابات سے تھری ٹائر پنچایتی راج نافذ ہونے جارہاہے جس سے مجموعی طور جموں وکشمیر کے سیاسی نظام میں ایک بڑی تبدیلی ہونے والی ہے۔ ایک نئی سیاسی سوچ جنم لینے جارہی ہے۔ اب عوام کو سرپنچ، پنچ، ڈی ڈی سی، ایم ایل اے اور ایم پی ‘الیکشن میں یہ فرق واضح نظر آئے گا کہ کس نمائندہ کو ووٹ دینے کا مقصد کیاتھا۔ اس سے پہلے جموں وکشمیر میں ایم ایل اے ہی عوام کا واحد نمائندہ ہوتا تو اور علاقے کی تعمیر وترقی، پسماندگی کا سارا کریڈٹ اُسی کے ذمہ ہوتا تھا، اب عوام کی طرف سے چنے جانے والے نمائندو¿ں کی تعداد بڑھ گئی ہے، ہر ایک کا کام بھی الگ الگ ہے۔
صحیح معنوں میں جمہوریت کا مطلب یہی ہے کہ عوام بہتر سے بہتر اُمیدوار کو چُن سکیں ۔اس ضمن میں الیکشن کمیشن بھی ایک اصلاحات کرسکتا ہے، وہ یہ کہ ڈی ڈی سی حلقے چونکہ بیس سے بائیس یا اِس سے کم پنچایتوں پر مشتمل ہیں، اس لئے کسی مرکزی جگہ کا انتخاب کر کے کمیشن اپنے خرچہ پر ہر اُمیدوار کا مقررہ تاریخ کو جلسہ کروائے جس میں رائے دہندگان سن سکیں اور باری باری سبھی اُمیدوار اُس پلیٹ فارم سے اپنا منشور، اپنا ایجنڈہ لوگوں کے سامنے رکھیں۔ اِس سوچ کو بدلو کہ اگر آپ ایک کے علاوہ کسی دوسرے اُمیدوار کے جلسے میں گئے تو آپ منافق، دل بدلو ہوگئے۔ ایسا ہرگز نہیں۔ آپ اِس بات کو سمجھیں ایسا کہنے والے آپ کی سوچ کو محدود رکھنا چاہتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ آپ کی معلومات کم ہی رہیں تو وہ اُن کے لئے بہتر ہے۔
سمجھنے ہی نہیں دیتی سیاست ہم کو سچائی
کبھی چہرہ نہیں ملتا کبھی درپن نہیں ملتا
اگر رائے دہندگان ترقی چاہتے ہیں تو انہیں ایسا سوچ اور ماحول بنانا ہوگیا کہ لیڈران کو اس قدر غیر محفوظ کیا جائے کہ اُس کے لئے ہر شخص اہمیت رکھے ، وہ ہر ایک کا کام کرئے ، اگر وہ اپنے منشور سے قائل نہ کرسکاتو اُس کو اپنے گھر کے ووٹ بھی نہ ملیں گے۔ اس سے ووٹر کی ترقی بھی ہوگی اور اچھا مقابلہ بھی دیکھنے کو ملے گا، جیت کی غرض سے کام پر توجہ دی جائے گی۔
الیکشن کو اپنی انّا کا مسئلہ نہ بنائیں، اِس کو بنیاد بنا کر خاندانوں، گھرانوں اور طبقہ جات میں آپسی دشمنیاں نہ پیدا کریں، الیکشن کو صرف الیکشن کی نظر سے ہی دیکھیں۔
دشمنی جم کر کرو لیکن یہ گنجائش رہے
جب کبھی ہم دوست ہو جائیں تو شرمندہ نہ ہوں
بشیر بدر
٭٭٭٭
نوٹ:کالم نویس صحافی اور وکیل ہیں
ای میل:[email protected]