مولانا محمد نعمان رضا علیمی بنارس
ہم تو محروم ہیں سایوں کی رفاقت سے مگر
آنے والے کے لیے پیڑ لگا دیتے ہیں
شجرکاری سے مراد ہے درخت لگانا درخت ماحول کو درست رکھنے اور خوب صورتی بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ ہمیں صاف ہوا فراہم کرتے ہیں۔ طوفانوں کا زور کم کرتے ہیں۔ آبی کٹاؤ کو روکتے ہیں، آب و ہوا کے توازن کو برقرار رکھتے ہیں اور آکسیجن فراہم کرتے ہیں۔ ایک درخت 36 ننھے بچوں کو آکسیجن فراہم کرتا ہے اور دو پورے خاندانوں کو 10 درخت ایک ٹن ائیرکنڈیشنر جتنی ٹھنڈک مہیا کرتے ہیں۔ یہ درجہ حرارت کو بھی عتدال و توازن بخشتے ہیں۔
درخت فضائی جراثیم اپنے اندر جذب کرتے ہیں۔ نیز انسانوں اور حیوانات کی غذائی ضروریات فراہم کرتے ہیں۔ چرند، پرند اور متعدد حیوانات کا مسکن بھی یہ درخت ہیں۔ ادویات کا مخزن ہیں، ادویہ کے لیے ان کی چھال، پتے، بیج، پھول اور پھل سب استعمال ہوتے ہیں۔ یہ درخت ہی ہیں جو لاکھوں سالوں کے عمل کے بعد کوئلہ میںتبدیل ہو کر توانائی کا وسیلہ بنتے ہیں۔
شجرکاری، باغات اور جنگلات کی اہمیت و ضرورت اس وقت اور بھی بڑھ جاتی ہے، جب چاروں طرف آلودگی بسیرا ڈالے ہو، صاف و شفاف ہوا کے لیے جسم ترستا ہو، اور زہر آلود ہوائیں نسلِ انسانی کو گھن کی طرح کھارہی ہوں۔ دورِ جدید کی سائنس و ٹکنالوجی نے جہاں انسان کی سہولت و آسانی کے لیے لامحدود و اَن گنت وسائل مہیا کیے ہیں، زندگی کے مختلف شعبہ جات میں انسان کو بام عروج پر پہنچا دیا ہے، وہیں اس کے لیے مختلف بیماریوں اور آفات کے سامان بھی فراہم کردیے ہیں۔ صنعتی ترقی کے اس دور میں ہرطرف آلودگی چھائی ہوئی ہے۔ ہوا، پانی اور زمین پر دیگر حیاتیات اپنی خصوصیات کھورہی ہیں۔ جن کی بقا کا مسئلہ پیدا ہوگیا ہے۔ فضائی آلودگی، آبی آلودگی، زمینی آلودگی، صوتی آلودگی، سمندری آلودگی، تیزی سے بڑھتی فیکٹریاں، سڑکوں پر گاڑیوں کی لمبی قطاریں، فضائی اور بحری جہازوں کا دھواں، مختلف صنعتوں کے فضلات سے مسئلہ مذید پیچیدہ ہوتا چلا جارہا ہے۔
درختوں کے گھنے جنگل کو قدرتی ’’سک‘‘ کہا جاتا ہے جو آس پاس کی ساری کاربن چوس لیتے ہیں۔ پہاڑوں پر پھیلے جنگلات لینڈ سلائیڈنگ کے خلاف مضبوط حصار ہوتے ہیں۔ یہ بارشوں کا بہت بڑا وسیلہ ہیں جن سے دھرتی کی آبیاری ہوتی ہے۔ یہی بارشیں موسمی اعتدال کا باعث بنتی ہیں۔ اللہ نے مخلوقات اور دیگر مظاہرِ کائنات کی تخلیق کو اس طرح مربوط کیا ہے کہ یہ سلسلہ بغیر کسی رکاوٹ کے جاری چلا آرہا ہے۔ اللہ نے انسان کو نباتات کے پھلنے پھولنے کا ذریعہ بنایا ہے، جس کی وجہ سے فضا میں توازن قائم ہے۔ لیکن اگر اس میں کسی طرح کی مداخلت کی جائے تو توازن میں خلل پیدا ہو جاتا ہے اور اس کے براہِ راست نقصانات انسانوں اور دیگر مخلوقات کو بھگتنا پڑتے ہیں ۔
شجرکاری کی اہمیت زمانۂ قدیم سے ہے۔ درختوں سے محبت کرنا اور ان کا خیال رکھنا، کئی اقوام کی تاریخی، تمدنی اور معاشرتی اقدار کا حصہ رہا ہے۔
شجر کاری قدیم زمانے سے ہی ایک اہم شعبہ رہا ہے جس میں وقت کے ساتھ شجرکاری کے لیے آج جدید مشینریوں نے آسانیاں پیدا کردی۔ کسانوں کے لیے درخت لگانا مشکل نہیں ہے۔ البتہ یہ جاننا ضروری ہے کہ کب، کہاں اور کیسے بہتر پیداوار حاصل کی جاسکتی ہے۔ جیسے جدید تحقیق کے مطابق جس زمین میں الکلی کی مقدار زیادہ ہو اس میں سفیدہ لگانے سے اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ سفیدہ کے درخت زائد الکلی جذب کرلیتے ہیں جس کے نیچے میں زمین کی زرخیزی اور پیدوار میں اضافہ ہوتا ہے۔
شجر کاری کا ایک طریقہ جو کہ پوری دنیا میں بہت مقبول ہے، وہ فارم ہاؤس کی تعمیر ہے۔ ملک کے مختلف مقامات پر فارم ہاؤس تعمیر کیے جاتے ہیں جو کہ پوری طرح شجر کاری کا مظہر ہوتے ہیں۔ صنعتی شجرکاری کے تحت جنگلات کا تحفظ کیا جاتا ہے۔ شجر کاری کے جدید طریقوں میں سے ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ کچھ خاص پودوں کو جن سے فوائد حاصل ہوسکتے ہیں انھیں دوسرے ممالک سے منگوا کر لگایا جاتا ہے۔ شجرکاری کا ایک طریقہ آرائشی پودوں کے ساتھ پارکوں کی تعمیر ہے۔ اس کے تحت مختلف مقامات پر تعمیر کی جاتی ہیں اور ان میں طرح طرح کی آرائشی پودے لگائے جاتے ہیں۔
درخت ہمارے قدیمی ساتھی ہیں اور ہماری تہذیب کی قدیم ترین نشانیاں، گلوبل وارمنگ کے اس دور میں ان کی اہمیت میں مذید اضافہ ہو چکا ہے۔ بقول اختر یستوی:
برسوں سے اس میں پھل نہیں آئے تو کیا ہوا
سایہ تو اب بھی صحن کے کہنہ شجر میں ہے
جدید تحقیق کے بعد ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر فضا میں کاربن کے اخراج کی مقدار بڑھتی رہی تو غذاؤں کی تاثیر تبدیل ہو جائے گی۔ پھلوں اور سبزیوں کی غذائیت کھو جائے گی۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ماحول دوست سرمایہ کاری کریں اور زیادہ سے زیادہ درخت لگائیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔