عارف عزیز (بھوپال)
سرسیّداحمدخاں علیہ الرحمۃ پر بہت کچھ لکھا گیا اور لکھا جارہا ہے، اُن کی مقبولیت اور اہمیت کی وجہ اُن کا وہ تعلیمی کارنامہ ہے جس نے۰۲ویں صدی کے ہندوستان پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں، وہ ایک روشن دماغ اور کثیرالجہت شخصیت کے مالک تھے، جس نے کارنامے انجام دیئے اور جس سے کوتاہیاں بھی سرزد ہوئیں، سرسیّد کی فکر و نظر کے بعض گوشوں سے کم یا زیادہ اختلاف کی گنجائش پہلے بھی تھی، آج بھی ہے کیونکہ انبیاء کرام کے سوا دنیا میں کوئی فرد وبشر ایسا نہیں جس کے قول وفعل سے اختلاف کا جواز نہ نکلتا ہو لیکن یہ اختلاف اصلاح پر مبنی ہونا چاہیے دشنام طرازی پر نہیں، سرسیّد کے بارے میں اُن کے معترضین سے زیادتی یہ ہوئی کہ انھوں نے اوّل سرسید کے دور اور اُس کے تقاضوں کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی، اگر اِسے پیشِ نظر رکھتے تو شدید تنقید یا بدگمانی کی نوبت نہیں آتی یا سرسیّد نے باقاعدہ عالم نہ ہونے کے باوجود دین کے بارے میں جو کچھ تحریر کیا اُس کا مقصد بہتر طریقہ پر پورا ہوتا اور مفید نتائج برآمد ہوتے، حقیقت یہ ہے کہ افراط وتفریط کا مظاہرہ دونوں طرف سے ہوا، جہاں تک سرسید کے جذبہ اور تمنا کا سوال ہے تو وہ چاہتے تھے کہ اسلام کی حقانیت مسلمانوں پر ہی نہیں، ساری دنیا پر واضح ہو، اُن کا خیال تھا کہ مسلمانوں کی کمزوری وپستی کی بنیاد مذہب سے ناواقفیت، جہالت، اوہام پرستی اور جدید علوم وفنون سے بے رغبتی میں پیوست ہے ،وہ کہتے تھے کہ انگریز فاتح اور حاکم ہیں، اِس حقیقت کو تسلیم کرلینا چاہیے کہ انگریز ایک ترقی یافتہ قوم ہے لہٰذا اُن کا علوم وفنون، اُن سے سیکھ کر ہی اُن کا مقابلہ ہوسکتا ہے، جب تک مسلمان عصری علوم اور جدید فنون سے آراستہ نہیں ہوں گے ایک بالادست قوم سے مقابلہ میں انھیں پسپائی کا سامنا کرتے رہنا ہوگا ۔ سرسید کے نقطۂ نظر سے مذہب اِس میں رکاوٹ نہیں بلکہ معاون ہے، جیسا کہ ہم ابتداء سے دیکھتے آرہے ہیں کہ متداول علوم سیکھ کر ہی مسلمانوں نے اپنے دینی رجحان کو فروغ دیا اور مستحکم کیا ہے، اُن کا اصرار تھا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات اِسی لیے بنایا کہ اُس کے پاس عقل کی دولت اور سوچنے و سمجھنے کی صلاحیت ہے، اسلام کی جملہ تعلیمات کی بنیاد قرآن پر ہے اور قرآن جگہ جگہ تعقّل، تدبّر، تفہیم اور تعلیم پر زور دیتا ہے، صرف اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس میں عقل انسانی کو بار بار مہمیز لگائی گئی ہے اور ساتھ ہی یہ تاکید کی گئی ہے کہ ہر بات سوچ سمجھ کر کہی جائے، اِس سیاق وسباق میں سیّداحمد خاں نے اندھی تقلید اور غیرضروری رسم و رواج کے خلاف آواز اُٹھائی اور مسلم قوم کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ توہمات، بے دینی کی علامت ہے اور اسلام مذہب اُن کو قبول کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔
سرسیّد کے یہی خیالات تھے جس نے قوم کی جہالت سے فائدہ اُٹھانے والوں کو اُن سے برگشتہ کرنے کا موقع فراہم کیا اور اُن کے خلاف صف آراء ہوگئے پھر بھی سرسید کے عزم و استقلال میں کمی نہیں آئی بلکہ اُن کی آواز اور بھی بلند ہوگئی اور وہ جی جان سے مسلمانوں کی اصلاح میں مصروف ہوگئے۔ سرسید نے مذہب کو جس طرح سمجھا، اُسی انداز میں پیش کیا تھا، اُن کا کہنا تھا کہ مذہب کا کوئی پہلو ڈھکا چھپا نہیں ہے، ہر چیز سمجھ میں آنے والی ہے اُن کی بنیادی فکر یہی تھی کہ لوگ اندھی تقلید سے بچیں، قرآن کی عظمت کو پرکھیں اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو اپنے دلوں میں جاگزیں کریں، اُنھوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اسلام ہی ایسا مذہب ہے جو نئے زمانے اور جدید رُجحانات کے ساتھ آگے بڑھ سکتا ہے، اُنھوں نے قرآنی آیات کے حوالہ سے یہ واضح کیا کہ اسلام سائنس اور اُس کے ذریعہ ترقی کرنے کا مخالف نہیں بلکہ ایک متحرک اور ترقی پسند مذہب ہے۔
سرسیّد نے مذہب کے بارے میں جو کہا یالکھا، وہ اُس وقت کا تقاضا تھا، وہ اُن حملوں کا جواب تھا جو دشمنانِ اسلام، اسلامی فکروقوانین پر کررہے تھے، بالخصوص مشنری یعنی عیسائی مبلغ اِس گھات میں تھے کہ کوئی موقع ملے اور وہ اسلام پرحملہ آور ہوکر مسلمانوں کو اُس سے برگشتہ کردیں۔ اُن کے منادی، اخبارات و رسائل سب کا زور اِس پر تھا کہ اسلام ایک غیرفطری مذہب ہے، اُن کی طرف سے حضرت رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ، اُن کے اخلاق وعادات کو نشانہ بنایا جارہا ہے، سرسید کی اسلام کے بارے میں بیشتر توجیحات اِس کے جواب پر ہی مشتمل ہیں۔ ہندوستانی مسلمانوں کے مجموعی حالات پر بھی وہ بہت فکرمند تھے اور انگریز حکمرانوں کے سامنے اسلام کو امن و عافیت کا سرچشمہ ثابت کرنا چاہتے تھے تاکہ اُن کی دشمنی میں کمی آئے۔ سرسید کے مضامین و تصانیف کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مذہب پر اُن کا راسخ عقیدہ تھا اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ اُنھوں نے دشمنوں کے اسلام پرلگائے گئے الزامات کا دلائل کے ساتھ جواب دیا ہے۔
یہاں یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ سرسید کے مفید نظریات کی علماء کی طرف سے مخالفت نہیں کی گئی، جیسا کہ عام طور پر کہا جاتا ہے، بلکہ مذہب کے بارے میں اُن کی بعض اُن ابتدائی تعبیرات پر گرفت ہوئی ہے جو قرآن وحدیث سے متصادم تھیں کیونکہ علماء کرام کا بڑا حلقہ سرسید کے اسلام کے تعلق سے نظریات کو شبہ کی نظر سے دیکھنے لگا تھا وہ اُن کی تعلیمی تحریک کو بھی مذہبی عقائد کی تبلیغ تصور کرکے اُس کا مخالف ہوگیا تھا، بعد میں سرسید نے اپنے بیشتر نظریات پر نظرثانی کی مگر اُس وقت تک کافی دیر ہوگئی تھی۔
اِس تعلق سے ایک اور الزام تراشی یہ ہوئی کہ علماء انگریزی تعلیم کے خلاف ہیں۔ حالانکہ رسالہ ’’تہذیب الاخلاق‘‘ یکم ذی الحجہ ۰۹۲۱ھ کے شمارہ میں سرسیّد خود تسلیم کرتے اور اِس پر مسرت ظاہر کرتے ہیں کہ ’’مولوی صاحب موصوف یعنی مولانا محمد قاسم نانوتوی بھی مسلمانوں کے حق میں علوم و فنونِ جدیدہ کا حاصل کرنا ضروری سمجھتے ہیں‘‘۔ ۴۰۹۱ء میں شیخ الہند مولانا محمودالحسن نے جمعیۃ انصار کمیٹی قائم کی تھی جس کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ اُس کے ذریعہ دارالعلوم دیوبند اور علی گڑھ کے درمیان تعلقات کو استوار کیا جائے، اِن حوالوں سے تصدیق ہوتی ہے کہ سرسید کی مخالفت میں جو عناصر پیش پیش تھے، اُن کا تعلق علماء دیوبند سے نہیں تھا۔
حضرت شاہ عبدالعزیزؒ جو اُس دور کے ہندوستان کی ایک نامی گرامی ہستی تھے جب اُن سے انگریزی تعلیم کے بارے میں فتویٰ مانگا گیا تو اُن کا جواب تھا۔ انگریز کالج میں جانا اور پڑھنا اور زبان سیکھنا بموجبِ مذہب درست ہے۔ علامہ انورشاہ کشمیری کی رائے تھی کہ انگریز ایک مفسد قوم ہے، اِس کے باوجود انگریزی اور علومِ جدیدہ کا سیکھنا جائز بلکہ ضروری ہے۔
سرسیّد انگریزی تعلیم انگریزوں کی خوشنودی کے لیے مسلمانوں کو حاصل کرانا نہیں چاہتے تھے بلکہ اُنھیں تو یہ بھی اندازہ اور خوف تھا کہیں اِس تعلیم سے مسلمان نوجوانوں کے عقائد و اعمال پر منفی اثرات نہ مرتب ہوں لیکن وہ یہ بھی جانتے تھے کہ قوم کے لیے انگریزی تعلیم ناگزیر ہے۔اِس کے بغیر ملک کے نظم و نسق میں مسلمانوں کے داخلہ کی کوئی صورت ممکن نہیں اور اِسے نظرانداز کرنا خودکشی کے مترادف ہے، اِسی بنیادی ضرورت نے اُنھیں حقیقی اسلام کی تشریح و وضاحت پر مجبور کیا جسے اُس کے صحیح پس منظر میں جاننا اور سمجھنا ضروری ہے۔
اِسی طرح سرسید کی کانگریس مخالفت بھی کسی وقتی ردّعمل، جذباتی اُبال یا مخالفت برائے مخالفت کا نتیجہ نہیں تھی، اُن کی دوررس نگاہیں ڈیڑھ صدی پہلے وہ دیکھ رہی تھیں، جو آج کے ہندوستانی مسلمانوں کے تجربہ کا حصّہ ہے۔ کانگریس کا قیام خواہ سرہیوم کے اشارہ پر ہوا ہو، لیکن اِسے مستحکم کرنے اور مقبول بنانے میں تعلیم یافتہ بنگالی پیش پیش تھے، وہ کہتے تو یہ تھے کانگریس مساوی انتخابی طریقۂ کار اپناکر ایک جمہوری پارلیمانی نظام قائم کرے گی، لیکن اِس پر روزِ اوّل سے پڑھے لکھے بااثر ہندوؤں کا دبدبہ قائم تھا، جب کہ علماء کرام جنھوں نے ملک کو آزاد کرانے اور کانگریس کو مسلمانوںمیں قبولیت دلانے میں جی جان کی بازی لگادی، اُن کا حصّہ آٹے میں نمک سے زیادہ نہ تھا، جب تک پرانی نسل کے لوگ زندہ رہے، اُس وقت تک اقتدار میں تھوڑا بہت حصّہ مسلمانوں کو ملتا رہا، لیکن اِس کے بعد کانگریس کی قیادت و سیاست سے مسلمانوں کو باہر کرنے کا عمل تیز ہوگیا۔
سرسیّد کی آنکھیں بند ہونے کے بعد کی سوا صدی پر محیط ہندوستانی سیاست کے نتائج و عواقب پر غور کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ کانگریس کی مخالفت میں سرسیّدکی آنکھیں مستقبل کے ہندوستان میں مسلمانوں کی بقاء، اُن کی تعلیمی، سماجی اور معاشی و سیاسی مسائل یہاں تک کہ بابری مسجد سانحہ کے خدوخال تک دیکھ پرکھ رہی تھیں لہٰذا سرسید کی کانگریس مخالفت کا اُس کے صحیح پس منظر میں جائزہ لینے کی ضرورت ہے، سرسیّد اگر غلط ہوتے تو کانگریس کے دورِ اقتدار میں ہندوستانی مسلمانوں کی وہ زبوں حالی نظر نہیں آتی جو آج ناقابلِ تردید حقیقت بن گئی ہے۔