الطاف حسین جنجوعہ
جموں//جموں وکشمیر ہائی کورٹ نے زرعی اصلاحات قانون1976سے متعلق ایک اہم فیصلے میں کہا ہے کہ اِس قانون کے تحت اراضی کے مالکانہ حقوق حاصل کرنے کے لئے فریقین کے درمیان زمیندار/مالک اور کرایہ دار (کاشتکار)کا رشتہ ہونا ضروری ہے۔ جسٹس جاوید اقبال وانی نے آئین ِ ہند کی دفعہ 226کے تحت دائر عرضی پر فیصلہ صاد کرتے ہوئے کہاکہ 1976میں یہ قانون اِس مقصد سے لایاگیاتھاکہ زمیندار اور کاشتکار/کرایہ دار کے درمیان رشتہ ختم کیاجائے۔ دفعہ4اوردفعہ8کا فائیدہ حاصل کرنے کے لئے فریقین کے درمیان زمیندار اور کاشتکار/کرایہ دار کارشتہ ہونا چاہئے اور خریف 1971کو کاشتکار کے قبضہ میں زرعی زمینی ہونی چاہئے اور وہ زمیندار کو اِس کا کرایہ ادا کرتاہو۔دفعہ4میں اِس قانون کا استفادہ حاصل کرنے کی اہلیت بتائی گئی ہے جس میں خریف1971کے وقت کاشتکار کے قبضہ میں زمین ہونا اور وہ زمیندار کو اِس کا کرایہ ادا کر رہاہو۔ اسی طرح دفعہ8کے تحت اہل کرایہ داروں /کاشتکاروںکو انتقال اسناد جاری کرکے ریکارڈ میں بطور جائز قابضین یا مالکان کے طور اُن کا اندراج کرنا ہے۔ اس عرضی میں مدعی نے مئی 2019کو فائنانشل کمشنر (ریونیو)…. کمشنر زرعی اصلاحات اور 11جون2019کو جموں وکشمیر اسپیشل ٹریبونل کی طرف سے پاس دو فیصلوںکو چیلنج کیاتھا۔ تنازعہ مدعی کے حق میں زرعی قانون کے تحت انتقال کی تصدیق سے متعلق تھا جس سے متاثرہوکر مدعا علیان نے 2015کو اپیل دائر کی تھی ۔مدعا علیان کی استدعا ہے کہ سال 1977میں اُن کے والد کی وفات ہوئی جوکہ زمین کا اصل مالک تھا۔ اُن کا الزام تھاکہ مدعی کے والد اُن کے ہاں ایک مزدور تھا جبکہ زمیندار وکرایہ دار /کاشتکار کا کوئی رشتہ نہ تھا، جس کے حق میں انتقال کی تصدیق غیر قانونی طور اُنہیں مطلع کئے بغیر عمل میں لائی گئی۔ اپیلانٹ اتھارٹی نے مذکورہ اپیل کو منظور کرکے انتقالات کو کالعدم قرار دیتے ہوئے سرنو انکوائری کا حکم صادر کیا۔ اس فیصلے کیخلاف مدعی نے جے اینڈ کے اسپیشل ٹریبونل میں نظرثانی عرضی (رویژن پٹیشن)دائر کی لیکن ٹریبونل نے بھی اپیلانٹ اتھارٹی کے فیصلے کو برقرار رکھا۔ اِنہیں دو احکامات کو مدعی نے ہائی کورٹ میں چیلنج کیا۔ کورٹ نے وکلاءکی دلائل سننے کے بعد فیصلے میں کہاکہ اراضی زرعی تھی اور ریکارڈ تاریخ ہے کہ مدعی کا والد زرعی اصلاحات قانون نافذ العمل ہونے سے قبل کرایہ دار/کاشتکار تھا، لیکن دوران ِ حیات مدعی کے والد کے حق میں انتقال کی تصدیق نہ ہوئی۔ فاضل جج نے کہاکہ دفعہ4اور8کے تحت مدعی کے حق میں انتقالات سال1982اور1983میں ہوئے۔ پہلے محکمہ مال حکام نے بغیرکسی انکوائری سال1982کو انتقال نمبر2369کے تحت ’صحت کاشت‘کے طور گرداروری کی ۔ زرعی اصلاحکات قواعد1977کے قاعدہ نمبر4کے تحت انکوائری کرنی ضروری ہے۔ عدالت عالیہ نے اپیلنٹ اتھارٹی اور اسپیشل ٹریبونل کی طرف سے پاس آرڈرز میں آئین ِ ہند کی دفعہ226کے تحت حاصل اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے کوئی چھیڑ چھاڑ نہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے عرضی کو مسترد کر دیا البتہ عدالت نے فیصلہ جوکہ اسسٹنٹ کمشنر محکمہ مال نے تازہ انکوائری کے بعد دینا ہے، سے متعلق کوئی بھی رائے ظاہر نہ کی۔قابل ِ ذکر ہے کہ زرعی اصلاحات قانون کے تحت دفعہ4اور8کے تحت جس اراضی کے مالکانہ حقوق تفویض کئے جاتے ہیں وہ آگے کسی کو فروخت نہیں کی جاسکتی۔ البتہ جموں وکشمیر تنظیم نو قانون 2019کے بعد کئی گئی ترمیم کے مطابق 15سال کے بعد مالک زرعی اصلاحات قانون کے تحت زمین فروخت کرسکتا ہے لیکن صرف کھیتی باڑی کرنے والے شخص کو ہی۔