پنچایتی سطح پر کویڈ کیئر سینٹرز
سنجیدہ کوشش یا پھرخزانہ عامرہ کی بربادی!
الطاف حسین جنجوعہ
7006541602
عالمگیر وباءکویڈ19نے زندگی کے ہرشعبہ کو متاثرکیا ہے بلکہ ہمارے تمام اندازوں، تجربات وتحقیق کو اب تک ناکام ثابت بھی کردیا۔ ایک ایسے وقت میں جب ہم رواں برس یہ تاثر قائم کرچکے تھے کہ اب اِس وباءسے ہمارے ملک نے نجات پالی، تبھی دوسری لہر نے آناًفاناًقہر بپا کیا ، اِس سے پہلے کہ ہم سنبھلتے کئی قیمتی جانیں تلف ہوگئیں۔ہرسوں افراتفری، بے چینی، مایوسی، افسردگی کا ماحول پیدا ہوا۔ضلع اسپتال تو دور ملک کے نامی گرامی اسپتالوں میں بھی طبی سہولیات وخدمات ناکافی پڑ گئیں۔دوسری لہر میں وباءکیمونٹی سطح پر بھی تیزی کے ساتھ پھیلی کہ اب اِس نے شہر وقصبہ جات سے نکل کر اپنا دائرہ دور دراز گاو¿ں دیہات تک پھیلا لیا، جس پر قابوپانا حکومت اور محکمہ صحت کے لئے مشکل بن گیا۔گاو¿ں دیہات کے اندر کورونا مثبت معاملات کا پتہ لگانا اتنا آسان نہیں جہاں اِس کو لیکر اتنی افواہیں، من گھڑت کہانیاں آپ کو سننے کو ملتی ہیں ۔لوگوں کے شکوک وشبہات، غلط فہمیوں کو دور کرنا ایک پیچیدہ عمل ہے اور یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ حکومتی سطح پر اس وباءسے متعلق دیہات میں بیداری عام کرنے کے لئے ایسے کوئی ٹھوس اقدامات نہ اُٹھائے گئے جس سے زمینی سطح پر لوگوں کی سوچ میں مثبت تبدیلی رونما ہوتی۔
گاو¿ں میں تیزی سے کورونا مثبت معاملات سامنے آنے پر جموں وکشمیر انتظامیہ نے پنچایت سطح پر کویڈ کیئر سینٹرز بنانے کا بڑا فیصلہ لیا۔ یہ ذمہ داری محکمہ دیہی ترقی وپنچایتی راج پر چھوڑی گئی کہ وہ پنچایت سطح پرکسی موزوں جگہ کا کویڈ سینٹر کے لئے انتخاب کریں، وہ پنچایت گھر، اسکول عمارت، مدرسہ یا کوئی کیمونٹی ہال ہوسکتا ہے۔فی کویڈ سینٹر میں 5بیڈ، بسترا، چادریں، کُرسیاں، پی پی کٹس، سینی ٹائزرز، ماسک، ایک آکسیجن سلنڈر، آکسی میٹرز وغیرہ سامان کی فراہمی کے لئے ایک لاکھ روپے خزانہ عامرہ سے واگذا کرنے کا علان کیاگیا۔ اس کے علاوہ سینٹر کی دیکھ ریکھ کے لئے تین ماہ تک پانچ رضاکاروں(Volunteers)کی تقرری بھی عمل میں لائی گئی جنہیں فی کس چار ہزار روپے ماہانہ مشاہیرہ دینے کی بھی بات کی گئی ہے۔یعنی کہ کویڈ کیئر سینٹرز پر حکومت مجموعی طورفی کس1لاکھ60ہزار روپے صرف کر ے گی۔یعنی کہ اوسطاً ہر ضلع میں4کروڑ روپے سے زائدفنڈزمنظور کئے گئے ہیں۔ یہ خطیر رقم ہے۔ اگر اس کا استعمال ضلع سطح، سب ضلع اسپتال ، کیمونٹی ہیلتھ سینٹر یا پھر پرائمری ہیلتھ سینٹر پر بنیادی ڈھانچہ کی مضبوطی اور دیگر مطلوبہ سہولیات کی فراہمی کے لئے کیاجاتا تو زیادہ بہتر تھاکیونکہ پنچایت سطح پر کویڈ کیئر سینٹر کے نام پر واگذار فنڈز کاصحیح استعمال ہو، اِس کے امکانات بہت کم ہیں۔
جموں وکشمیر کی متعدد پنچایتیں /گاو¿ں ایسے ہیں جہاں پر اللہ کے فضل سے وبائی بیماری کا اثر اتنا نہیںاور وہاں پر اِن مراکز کا قیام موجودہ ہنگامی حالات، جہاں پیسہ پیسہ اہمیت رکھتا ہے، کی کوئی ضرورت نہیں۔ متعدد مقامات سے یہ اطلاعات ہیں کہ میڈیا اور حکام بالا تک یہ بات پہنچانے کے لئے کہ کویڈ کیئر سینٹرز قائم کر دیئے گئے ، پنچایت سطح پر جس جگہ سینٹرز قائم کئے گئے، اڑوس پڑوس سے وہاں پر بیڈ وکرسیاں اور بسترلاکر رکھے گئے جنہیں فوٹوگرافی اور ویڈیوگرافی کے بعد لوگ اُنہیں اُٹھا کر گھروں میں واپس بھی لے گئے۔رضاکاروں کے نام پر پنچایتی ممبران نے اپنے ہی اہل خانہ کوتعینات کیا لگایا ہے، جومعمول کے مطابق اپنے دیگر کاموں میں مصروف ہیں اور کاغذوں میں کویڈکیئر سنٹرز میںوالنٹیئرز کے طور کام کر تے دکھائے گئے ہیں۔
منریگا اور مالیاتی کمیشن کے تحت ہر سال اوسطاً پنچایتوں کو 70سے80لاکھ روپے ملتے ہیں لیکن اس خطیر رقم کا زمینی سطح پر کتنا استعمال ہوتا ہے ، اُس کا مشاہدہ آپ خود اپنی پنچایت کو دیکھ کر بخوبی کرسکتے ہیں۔ایسی صورتحال میں 1.60لاکھ روپے کیا ہوگا، یہ بھی آپ بہتر بتاسکتے ہیں۔ سرکاری سطح پر بل بناتے وقت یہ بھی ایک معمول ہے کہ سامان کم سے کم معیار اور قیمت اعلیٰ سے اعلیٰ معیار کی لگائی جاتی ہے۔اِس سے بہتر ہوتا کہ ضلع اسپتال، سب ضلع اسپتال، کیمونٹی ہیلتھ سینٹر اور پرائمری ہیلتھ سینٹرز اس رقم کا استعمال ہوتا تو اچھی خاصی سہولیات قائم ہوسکتی تھیں۔ پرائمری ہیلتھ سینٹرز پر کہیں عملہ نہیں تو کہیں مطلوبہ ڈھانچہ اور ادویات دستیاب نہیں۔اِس خطیر رقم سے گاو¿ں سطح پر پہلے سے موجود ہیلتھ مراکز کو مضبوط کیاجانا چاہئے تھا۔ خیر اب چونکہ یہ فیصلہ ہوچکا ہے اور فنڈز بھی واگذارکر دیئے گئے ہیں، متعلقہ انتظامیہ کو چاہئے کہ اِس فنڈز کا بہتر اور منصفانہ استعمال ہو۔اِس رقومات کو صرف اِس وباءکو مد نظر رکھ کر نہیں بلکہ مستقل حکمت عملی کے طور استعمال کیاجاناچاہئے۔ اس سے بلڈپریشر ا ورشوگر چیک کرنے والی مشین اور دیگر ضروری مشینری کی خریداری بھی یقینی بنائی جائے تاکہ اِس کو پنچایت سطح پر بعد میں ضرورت پڑنے پر استعمال کیاجاسکے۔اب تک یہ بھی واضح نہ ہے کہ تین ماہ بعد اگر صورتحال بہتر ہوجاتی ہے تو یہ انفراسٹریکچر کہاں جائے گا۔چونکہ یہ عوام کاپیسہ ہے، اس لئے اِس کے بہتر انتظام وانصرام کو بھی یقینی بنایاجانا چاہئے کیونکہ پنچایتوں کے لئے جولاکھوں روپے کا فرنیچر/سامان اس سے پہلے دیاگیا ، وہ بھی بیشتر مقامات پر پنچایتی ممبران کے گھروں میں ہی استعمال ہوتا ہے اور سرپنچوں نے اُس کو اپنی ذاتی ملکیت تصور کر رکھاہے۔بظاہر کویڈ کیئر سینٹر کے لئے رقم کم لگتی ہے، مگر آپ سوچیں کہ مجموعی طور اِس کا اگر استعمال ہوتا تو کیمونٹی ہیلتھ سینٹر یا پرائمری ہیلتھ سینٹر پر کتنی بہتر طبی سہولیات اور مطلوبہ مشینری کی دستیابی یقینی بن سکتی تھی۔پنچایتی ممبران اور گاو¿ں کے ذی شعور افراد کو چاہئے کہ وہ اِس کو منریگا یا دیگر دیہی ترقی محکمہ کے فنڈز کی طرح نہ سمجھ کر اِس پیسے کا بہتر استعمال یقینی بنائیں اور خد ا کا خوف کھا کر کم سے کم اِس رقم کاکاغذی خانہ پوری کی بجائے منصفانہ استعمال کریں۔
٭٭٭٭٭٭
ای میل:[email protected]