ضلع ترقیاتی کونسلوں کا قیام
نئے سیاسی نظام اور بیانیے کی شروعات !
الطاف حسین جنجوعہ
7006541602
دوسالہ پرانی تاریخی ریاست جموں وکشمیر جو5اگست2019کے بعد دو مرکزی زیر ِانتظام علاقوں(یونین ٹیراٹری)میں تبدیل ہے، کی سیاسی تاریخ میں کئی ایسے مواقعے آئے ہیں جس نے عوامی سطح پر سیاسی سوچ وفکر کوکافی حد تک متاثر کیا اور ساتھ ہی سیاسی بیانیے میں بھی تبدیلی رونما ہوئی۔1927(سٹیٹ سبجیکٹ قوانین کا اطلاق)1931(شخصی راج کے خلاف منظم عوامی بغاوت/تحریک)، پھر1947(جموں وکشمیر کی تقسیم)، 1953(شیخ محمد عبداللہ کی گرفتاری)، 1965(وزیر اعظم سے وزیر اعلیٰ اور صدرِ ریاست سے گورنر)، 1975(اندرا ۔شیخ ایکارڈ) 1989(اسمبلی انتخابات میں دھاندلیوں کے بعد مسلح عسکریت پسندی کا فروغ)او ر پھر 5اگست2019میں آئین ِ ہند کی دفعہ370اور35-Aکے تحت حاصل خصوصی درجے کے خاتمہ کچھ ایسے پل ہیں ج سے بڑی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔5اگست2019سے قبل متذکرہ بالاواقعات سے کیا تبدیلیاں رونما ہوئیں، وہ اب تاریخ کا حصہ ہیں اور آپ اِن سے بخوبی واقف ہیں۔2019اگست کے بعد انتظامی وسیاسی سطح پر جوتبدیلیاں رونما ہورہی ہیں اُس کے ہم شاہدبن رہے ہیں اور یہ بھی کل تاریخ کا حصہ ہوں گیں۔
حریت نواز تنظیموں اور علیحدگی پسند سوچ رکھنے والوں کی سرگرمیاں مکمل بند ہوگئی ہیں اور یہاں تک کہ بیانات تک نہیں آتے۔ نیشنل کانفرنس کی ’گریٹراٹانومی ‘ اور پی ڈی پی کے ’سیلف رول‘کا بھی اب کہیں ذکر نہیں۔ آپ اگر مشاہدہ کریں تو کم وبیش سبھی اِن دنوں مین اسٹریم سبھی علاقائی سیاسی جماعتوں کی طرف سے 5اگست 2019سے قبل کی پوزیشن بحال کرنے، اسٹیٹ ہڈ دینے، اراضی اور نوکریوں پر جامع ڈومیسائل قوانین دینے کی بات ہی زیادہ سننے کو ملتی ہے۔جموں وکشمیر کی سیاسی تاریخ پر گہری نظر رکھنے والوں کو کہنا ہے کہ جس سیاسی وانتظامی بے اختیاری سے جموں وکشمیر کے لوگ گذر رہے ہیں وہ اِس سے پہلے کبھی دیکھنے کو نہیں ملی ۔اب سیاسی ڈھانچہ اور عوامی سطح پر مین اسٹریم سیاسی جماعتوں کے تئیں سوچ میں بھی بڑی تبدیلی رونما ہونے والی ہے جس کا آغاز ہوچکا ہے اور ضلع ترقیاتی کونسلوں کا قیام اِسی کڑی کا اہم ترین حصہ ہے جس کے لئے ڈی ڈی سی انتخابات کا عمل جاری ہے۔
تھری ٹائر پنچایتی راج کے آخری حصہ یعنی ضلع ترقیاتی کونسل ‘ کے لئے رواں انتخابات میں جب کئی سابقہ کابینہ وزراءاور اراکین قانون سازیہ بھی کود پڑے تو عوامی حلقوں میں اِس کی کافی نکتہ چینی بھی ہوئی کہ یہ تو چھوٹے نوعیت کے الیکشن ہیں، اِس میں ایم ایل اے اور کابینہ وزیر رہ چکے رہنماو¿ں کی شمولیت ،اُن کی شان کے خلاف ہے لیکن در اصل مذکورہ لیجسلیچرز یا وزراءضلع ترقیاتی کونسلوں کے قیام سے جموں وکشمیر سطح پر رونما ہونی والی سیاسی وانتظامی سطح پر بڑی تبدیلی کو پہلے سے بھانپااور ایسا فیصلہ کیا۔ عوامی حلقوں میں ابھی بھی یہ سوال گردش کر رہا ہے کہ اِن انتخابات کی کیا اہمیت ہے، جس پر ہرکوئی اپنے اپنے انداز میں جواب بھی دے رہا ہے۔در اصل ’ضلع ترقیاتی کونسل‘ضلع سطح پر ایسا با اختیار اکائی ہوگی جس کو وسیع تر” مالی اور منصوبہ بندی “کے اختیارات حاصل ہوں گے۔ مرکزی سرکارکی طرف سے مختلف پروجیکٹوں او ر فلاحی اسکیموں کی زمینی سطح پر عمل آوری کا کلی طور فیصلہ ’ضلع ترقیاتی کونسل ‘ہی کرے گی جس کے چیئرمین کا درجہ کابینہ وزیر جیسا ہوگا اور یا ہم اُس کو ضلع کا منی چیف منسٹر بھی کہہ سکتے ہیں۔ ضلع کے اندر جتنے بھی ترقیاتی وفلاحی کام ہونے ہیں، کہاں کتنا پیسہ خرچ ہونا ہے، کس کو کتنا پیسہ دینا ہے وغیرہ وغیرہ سب اختیارات کونسل کے پاس ہوں گے۔اگرچہ بلاک ڈولپمنٹ کونسل چیئرمین، میونسپل کمیٹی /میونسپل کونسل صدر/چیئرمین اور میونسپل کارپوریشن میئر ، ایم ایل اے/اراکین پارلیمان بھی ضلع ترقیاتی کونسل کا حصہ ہوں گے لین ہر ضلع سے راست منتخب ہوکر آنے والے 14ڈی ڈی سی ممبران کا زیادہ اثر رسوخ اور اختیارات ہوں گے۔ چونکہ چیئرمین کو منتخب کرنے یا ہٹانے کا اختیارکلی طور اِنہیں ممبران کو ہوگا، اِس لئے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے تئیں بھی اِن کی زیادہ اہمیت ہوگی۔جب پروجیکٹوں اور اسکیموں کی الاٹمنٹ، اُن کی عمل آوری، رقومات کی ادائیگی وغیرہ کا اختیار اِن کونسل ممبران کے پاس ہوگا ، تو آپ ایم ایل اے کے پاس کیا لینے جائیں گے۔
جموں وکشمیر میں آج سے قبل کبھی بھی تھری ٹائر پنچایتی نظام مکمل طور رائج نہ ہوا ہے۔ اس لئے یہاں پر عوام اور حکومت کے درمیان واحد با اثر نمائندہ MLAہی ہوتا تھا جن کا راشن کارڈ کی اجرائیگی، انکم سرٹیفکیٹ، سٹیٹ سبجیکٹ حاصل کرنے سے لیکر لوگوں کے خانگی اور زمینی تنازعات کو حل کرانے تک چھوٹے چھوٹے معاملات میں بھی عمل دخل رہتا تھا، اس لئے ہر کسی کی دوڑ ایم ایل اے بننے کی رہتی تھی۔ پنچایتی انتخابات سے گاو¿ں سطح کے معاملات کو کافی حد تک سرپنچوں وپنچوں اور عدالتی چیئرمین کے ہاتھ میں چلے گئے ہیںجس سے پنچایت سطح پر ایم ایل اے کا کنٹرول پہلے ہی کم ہوچکا ہے، اب لوگ سرپنچوں وپنچوں کے پاس اپنے معاملات لیکر جاتے ہیں۔بی ڈی سی چیئرمین بننے کے بعد منصوبہ بندی اور فیصلہ سازی میں بلاک سطح تک اور اب ضلع کونسل بننے سے لیجسلیچرز(MLA)کے مالی اور منصوبہ بندی اختیارات گھٹ گئے ہیں۔منریگا یا دیگر دیہی ترقی محکمہ کی اسکیموںکے تحت ادائیگیوں کے اختیارات بھی سرپنچوں کے پاس ہی ہیں۔
لیجسلیچر یعنی قانون ساز….قانون بنانے والا۔ ایم ایل اے یعنی کہ قانون ساز اسمبلی رکن کا بنیادی اور اہم کام قانون بنانااور اپنے حلقہ کے لئے بڑے منصوبوں کی منظوری کروانا جس میں تعلیمی ادارے، کھیل کود ڈھانچے، پانی وبجلی اور سڑک کے بڑے پروجیکٹ، طبی اداروں کا قیام وغیرہ شامل ہے۔منظوری کے بعد اِس کی تعمیر وترقی کہاں ہوگی اور کیسے ہوگی اِس کا فیصلہ ضلع ترقیاتی کونسل کو کرنا ہے۔چونکہ اس سے قبل یہاں مکمل طور پنچایتی راج نظام نافذالعمل نہ تھا، اس لئے لوگوں میں قانون ساز ی اور ترقیاتی کاموں میں فرق کرنا مشکل تھا اور اُن کے لئے سب کچھ ایم ایل اے ہی تھا، اب ایسا نہیں۔ماضی میں ایم ایل اے کا جو بنیادی کام تھا، اُس کی طرف انہوں نے اتنی زیادہ دلچسپی لی اور نہ ہی سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ۔ وہ اُن کاموں کی طرف زیادہ اُلجھے رہے یا مشغول رہے جو ایگزیکٹیو یا پھر پنچایتی راج کے تحت آتے ہیں۔
قانون ساز اسمبلی کا اجلاس ایم ایل اے/ایم ایل سی کے لئے اہم ہوتا ہے لیکن ہوتا ایسا رہاکہ ’آج مقدس ایوان‘کو چھن جانے پر پریشان لیجسلیچرز نے اِس کو دھینگا میشتی بناکر رکھا۔ کبھی وقفہ سوال، وقفہ صفر صحیح ڈھنگ سے نہیں چلا۔ کسی قانون ، بجٹ پر تعمیری بحث نہیں ہوئی،اپوزیشن ممبران کی ہمیشہ کوشش رہی کہ حکومت کے خلاف نعرے بازی ، کُرسیاں پر چڑھ کر، مائیک او ر ٹیبل پلٹ کر یا کاغذات پھاڑ کر اخبارات کی شہ سُرخیاں بناجائے۔ حکمراں جماعت سے وابستہ لیجسلیچرز صرف کورم پورا کرنے کے لئے بعمل مجبوری ایوان کے اندر ٹکتے تھے۔یہ صورتحال سالہا سال چلتی رہی۔ایسی سوچ تھی کہ جولیجسلیچرز اچھا خاصا ہنگامہ ایوان کے اندر کرتا تھا، چاہئے بغیر کسی مدعے کے ہی ہو، مگر اُس کو اپنے حلقہ کے اندر واہ واہ ملتی تھی۔ مگر اب جب کبھی اسمبلی الیکشن ہوئے تو ایم ایل اے کا کام کاج کا دائرہ اِسی ایوان تک محدود ہوگا جس کو اِس سے پہلے خاص کر جموں وکشمیر میں مچھلی بازار بنادیاجاتارہا۔ کیونکہ اب ایم ایل اے کے پاس کوئی دوسرا چارہ بھی نہیں ہوگا ،اب سنجیدگی دکھائیں بھی تو کیا فائیدہ، اب قانون سازی ، آئین سازی کے اختیارات بھی محدود بلکہ نہ ہونے کے برابر ہیں۔مرکز نے ضلع ترقیاتی کونسل کے راست الیکشن کروا کر ایک تیر سے نئی نشان لگائے ہیں۔ اِس سے ایم ایل اے ایک ڈمی بن کر رہ جائے گا ،نئی لیڈرشپ سامنے آئے گی۔سول سیکریٹریٹ جموں/سرینگر پر لوگوں کا دباو¿ بہت ہی کم ہوجائے گا، زیادہ تر مسائل ومعاملات اُن کے ضلع سطح پر ہی حل ہوں گے۔ سیاسی جماعتوں کی کال پر ہونے والے احتجاجی مظاہرو¿ں ، دھرنوں یا دیگر پروگراموں کا دائرہ بھی اب یوٹی،صوبائی سطح سے کم ہوکر ضلع سطح تک محدود ہوجائے گا۔
سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ جب ضلع ترقیاتی کونسل مکمل طور فعال ہوگی، لوگوں کو اِس کے مالی ومنصوبہ بندی اختیارات کا عملی احساس ہوگا تو نئی سیاسی سوچ جنم لے گی، ٹیریٹوریل کانسٹی چیونسی سے منتخب ہوکر آئے ڈی ڈی سی ممبران کی زیادہ عوامی مقبولیت ہوگی۔ایم ایل اے کی اہمیت زمینی سطح پر لوگوں میں ایسی ہوجائے گی جیسے اِس سے قبل MPممبر آف پارلیمنٹ کی ہوا کرتی تھی۔اب ایم ایل اے سے زیادہ لوگوں کی دوڑ ضلع ترقیاتی کونسل چیئرمین بننے پر رہے گی جس کے لئے اُنہیں پہلے ڈی ڈی سی ممبر الیکشن لڑنا پڑے گا۔ یہ بھی کہاجارہا ہے کہ ”ضلع ترقیاتی کونسل“کی عوامی اعتباریت اور مقبولیت میں اضافہ کرنے کے لئے مختلف اسکیموں اور پروجیکٹوں کے تحت پچھلے کئی سالوں سے جورقومات ادانہ کی گئیں، کی ادائیگیاں بھی کچھ عرصہ تک تیزی سے متوقع ہیں اور یہ عمل عارضی بھی ہوسکتا ہے۔مختصر یہ کہ جموں وکشمیر میں لوگوں کو ضلع ترقیاتی کونسل کے قیام کے بعد وسیع مالی ومنصوبہ بندی اختیارات ومراعات سیکر سیاسی اعتبار سے بے اختیار کر نے کی ایک دلکش پہل ہے جس سے عوامی سطح پر نیا سیاسی بیانیہ بھی فروغ پائے گا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
نوٹ:کالم نویس صحافی اور وکیل ہیں
ای میل:[email protected]