یاسرعرفات طلبگار//دُدہوت، ڈوڈہ
1991 میں میری ابتدائی تعلیم گورنمنٹ پرائمری اسکول دُدہوت میں شروع ہوئی ۔ یہاں پر جس استاد نے مجھ پر اپنے حسن کردار اور علم و عمل سے اثر ڈالا وہ عزت مآب محترم و مکرم آفتاب احمد کھوکھر صاحب کی شخصیت ہے۔ ان کی متقیانہ ،فیاض اور عالمانہ شخصیت نے میری زندگی میں تعلیمی عمارت کی خشتِ اول اپنے پدرانہ و استادانہ ہاتھوں سے استوار کی۔ میں ان کی محبت و تدریس کے زیر سایہ مسلسل پانچ سال تک رہا ۔ پانچویں کے امتحانات میں اول آنے پر انہوں نے میرے گھر آ کر میرے والد بزرگوار کو خصوصی مبارکباد پیش کی۔ اس وقت مجھے ان ہی کی محنتوں سے زیڈ ای او گھٹ نے دو سو روپے کے انعامی وظیفے سے نوازا تھا ۔
بعدازاں ان ہی کے حکم سے گھروالوں نے میرا داخلہ سٹی مڈل اسکول ڈوڈہ میں لیا ۔وہاں پر ایک نیا ماحول، نئے لوگ اور نئے اساتید ملے۔ایک چھوٹے سے گاؤں سے نکل کر ایک چھوٹے قصبے کے مرکزی تعلیمی ادارے میں جانا کسی قدر اجنبیت سے خالی بھی نہیں تھا ۔ اس زمانے میں گاڑی میں چڑھنا ہمارے لئے جہاز میں چڑھنے کے برابر تھا، لہٰذا روزانہ بارہ سال کے بچے کو گھر سے پیدل چل کر سکول جانا پڑتا تھا ۔ سکول میں دو ہمدرد استاد موجود تھے جن کی محبت اور قابلیت کا اعتراف ہر طالب علم کو رہا ہے ۔ محترم غلام رسول بٹ صاحب اور محترم عطاء اللہ سِروال صاحب نے مجھے اپنا گرویدہ بنا لیا ۔ پورے عملے میں یہ دونوں استاد بچوں کا خاص خیال رکھتے تھے ۔ وہ اپنے مقررہ وقت پر اپنے اپنے مضامین بخوبی پڑھاتے تھے ۔ ان دونوں شخصیات نے میرے تعلیم کے شوق کو مزید بڑھا دیا ۔ ان کو میرے والد صاحب سے کافی جان پہچان تھی اس وجہ سے وہ میرا خصوصی خیال رکھتے تھے ۔ سٹی سکول سے آٹھویں کا امتحان پاس کر کے گورنمنٹ ہائر سیکنڈری سکول ڈوڈہ میں داخلہ لیا ۔ اتفاقاً محترم غلام رسول بٹ صاحب کا تبادلہ بھی وہیں کے لئے ہوگیا تھا جو میرے لئے بے حد خوشی اور خوش قسمتی کی بات رہی۔ وہاں پر ان کے علاوہ بہت سے قابل اور محنتی اساتید موجود تھے جن کا مجھے بے حد احترام ہے۔ جیسے محترم تصدق حسین کلم صاحب، محترم عبدالعزیز نٹنو صاحب، محترمہ شمیمہ نٹنو صاحبہ، شفایت صاحب، جہاں آرا ڈولوال صاحبہ، خالد جہانگیر صاحب (جو آج ڈی سی کے عہدے پر ہیں)، یاسر لطیفی صاحب، خورشید احمد شیخ صاحب ،وغیرہم۔ میں ذاتی طور پر بٹ صاحب، عبدالعزیز نٹنو صاحب اور شمیمہ نٹنو صاحبہ سے بہت زیادہ متاثر تھا ۔ وہ کلاس کے علاوہ بھی بچوں کا بہت زیادہ خیال رکھتے تھے ۔ دسویں پاس کرنے کے بعد لیکچرز صاحبان کے پاس پڑھنے کا موقع نصیب ہوا ۔ لیکچرز میں میرے پسندیدہ استاد محترم محمد شریف زرگر صاحب اور شری ناتھ رام جی رہے ہیں ۔ محمد شریف صاحب ایجوکیشن کا مضمون اور ناتھ رام جی انگریزی پڑھاتے تھے ۔ آج جو میں ٹوٹی پھوٹی انگریزی بولتا لکھتا ہوں یہ ناتھ رام جی ہی کی قابل تدریس کا نتیجہ ہے ۔
بارہویں پاس کر کے گورنمنٹ ڈگری کالج ڈوڈہ میں داخلہ لیا ۔ کالج میں بالکل نئی فضا تھی ۔ سب کچھ نیا تھا ۔ تین سال کے مسلسل دورانیہ میں مختلف اساتید سے سیکھنے پڑھنے کے مواقع فراہم ہوئے ۔ لیکن جن کی قابلیت نے مجھے متاثر کیا ان میں محترم محمد عبداللہ گنائی صاحب فارسی کے پروفیسر تھے ۔ ان کی شخصیت اور کردار اپنی جگہ مسلم اور معزز ہے۔ انہوں نے میرے اندر مزید تعلیم حاصل کرنے کا شوق پیدا کیا، یہاں تک کہ کشمیر یونیورسٹی کا نصاب تک مہیا کیا اور وقتاََ فوقتاً میری رہنمائی کرتے رہے ۔ میں آج جس جگہ ہوں یہ انہی محبانہ فیاضی کا ثمرہ ہے۔ ان کے علاوہ انگریزی کے پروفیسر محترم شاہجہان گنائی صاحب کی شخصیت نے بھی مجھے بہت متاثر کیا ۔ اگرچہ وہ نمبرات دینے میں وہ امتیاز ملحوظ رکھتے تھے تاہم کلاس میں ان کا پڑھانے کا سٹائل بہت دلکش تھا ۔
پھر عبداللہ صاحب کی رہنمائی میں کشمیر یونیورسٹی میں اینٹرینس کا امتحان دیا اور نشست حاصل کی۔ دوران تعلیم شعبہ فارسی میں میری نظر کو اپنا گرویدہ بنانے کے لئے دو عظیم شخصیات برسرِ مسندِ تدریس براجمان تھیں ۔ ان میں محترم و مکرم پروفیسر محمد منور مسعودی صاحب اور مرحومہ محترمہ پروفیسر ڈاکٹر زبیدہ جان معروف بہ مادر مہربان قابل ذکر ہیں ۔ جنہوں نے کبھی مجھے یتیمی کا احساس نہیں ہونے دیا ۔ ان کی محبت بے لوث، ان کی تدریس ماہرانہ اور ان کا اخلاق بہت بلند رہا ہے ۔ محترم مسعودی صاحب سے میں نے بہت کچھ سیکھا، ان کی چھوٹی سے چھوٹی بات بھی معنی خیز ہوتی ہے ۔اگر آج بھی ان سے بات ہوتی ہے تو میں دم بخود صرف سنتا اور سیکھتا ہوں ۔ان کی رہنمائی مجھے ہر گام پر حاصل ہے۔ میری تحریروں اور منظومات میں ان کی تربیت شامل اور رہنما رہتی ہے ۔ میرے قلم میں جو اثر ہے وہ میرے ان ہی اساتید کی تربیت کا اثر ہے ۔ مادر مہربان ڈاکٹر زبیدہ جان صاحبہ نے علم و فن کے ساتھ ساتھ انسانیت، خلوص، اخلاق، انسان دوستی اور یتیم پروری کی تربیت دی ۔ وہ اپنے شاگردوں کے ساتھ مادرانہ سلوک روا رکھتی تھیں ۔ ان میں ایک مخلص استاد اور ماں کے اوصاف بیک وقت جمع تھے ۔ ان سے کسی کا درد اور لاچارگی دیکھی نہیں جاتی تھی ۔ان کا دل کسی پریشان حال کو دیکھ کر تڑپ اٹھتا تھا ۔ مجھے ان سے خصوصی لگاؤ تھا ۔۔ ان اساتید ہی کی محنت اور لگن کا نتیجہ ہے کہ مجھے کشمیر یونیورسٹی سے گولڈ میڈل حاصل ہوئے۔ اور ان ہی اساتید گوہر شناسان کی رہبری اور تربیت نے مجھے حصول علم کے راستے پر چلنے کا سلیقہ دیا اور اسی برکت سے بعدازاں انہی گوہر شناس اور قابل اساتذہ کرام نے مجھے شعبہ فارسی میں بحیثیت استاد پڑھانے کے قابل سمجھا اور مجھے وہاں تعینات کیا ۔ ان کے پہلو میں رہ کر بہت کچھ سیکھا جو اس مختصر سی تحریر میں بیان نہیں کیا جا سکتا ۔ آخر میں دعا گو ہوں کہ الله تعالیٰ میرے تمام اساتید کرام کی عمر دراز فرمائے اور صحت کامل سے نوازے ۔
جو اساتید جہان فانی سے رخصت ہوئے انہیں جوار رحمت میں پناہ نصیب فرمائے ۔ آمین۔
رابطہ8803658857: