کچھ تو خوف کریں
جیسے ہم نے نہ بدلنے کی قسم کھائی ہو!
الطاف حسین جنجوعہ
دن اور رات ہمارے لئے عبرت ناک سبق اور ہماری پوری زندگی کی ایک مثال ہیں۔صبح صادق کی تازہ دم ہوا، دوپہر دھوپ کی تپش ، سہ پہر اِس میں نرمی اور پھر شام کو سورج کا ڈھل جانا ہمیں بتاتا ہے کہ بس یہی زندگی کی کہانی ہے اور یہ آنی جانی ہے، اِس میں ٹھہراو¿ نہیں۔ رات کی تاریکی کے بعد ہر صبح نئے سرے سے ہمیں اپنی خامیوں کو دور کرنے، گناہوں کا کفارہ کرنے اور غلطیوں کی تصحیح کا موقع فراہم کرتی ہے ، بہت سارے اِس کا فائیدہ اُٹھاتے ہیں اور ہم جیسے بہت بدنصیب بار بار اس موقع پر ضائع کرتے جارہے ہیں ۔ مادیت پسندی کے نشہ سے چور دنیا کا انداز اِ س قدر متکبرانہ ہوگیاتھاکہ ہم بھول ہی گئے تھے کہ کوئی عظیم اورلازوا ل طاقت ہے جوہرشہ پر قادرہے۔ایک معمولی سے نہ نظر آنے والے جراثیم جس کو ہم آج ’کورونا وائرس یا کویڈ19‘کے نام سے جانتے ہیں،کے ذریعہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی پاک ذات نے ہمیں اپنی حیثیت ، اوقات کا احساس دلاتے ہوئے راہِ راست پر آجانے کا موقع فراہم کیا ۔عالمِ اقوام کو اِس وباءکی لپیٹ میں لاکر ہمیں یہ موقع دیاگیاکہ آپسی اختلافات، رنجشوں ونظریات کوبالائے طاق رکھ کر جذبہ انسانیت کو فروغ دیں،ایکدوسرے سے دلی محبت کریں، انسانیت کے لئے دلی اخلاص، صدق دلی، ہمدردی ہو،پڑوسیوں سے بیرنہ کریں، معمولی زمین تنازعات پر ایکدوسرے کا خون نہ کریں،جوکام کر رہے ہیں، اُس سے انصاف کریں، کسی کی حق تلفی نہ ہو، جوذمہ داری یا فرض دیاگیا ہے، اُس کو انجام دینے میں کوتائی نہ ہو۔ ہم نفرت ، تعصب، بغض، لالچ، ہوس ،کینہ، حسد، غیبت،چغلی، رسہ کشی جیسی بُرائیوں کو ترک کر پیارو محبت کو فروغ دیں، انصاف پسندی سے کام لیں، شفقت، ہمدردی کو پروان چڑھائیں،کسی کی مجبوری کا فائید ہ نہ اُٹھائیں لیکن کیا ہم ایسا کرنے میں کامیاب رہے، یہ بہت بڑا سوال ہے۔
ہم نے حکومتی وانتظامی سطح پر کورونا وائرس کی آڑمیں لوٹ، بدنظمی، مالی بے ضابطگی ، ہیر پھیر کے نئے طریقے ایجاد کرلئے۔ ہم نے اشیاءخوردونوش اور دیگر لازمی سامان کی قیمتیں دُوگنی چوگنی کردیں،ہم نے کسی کی مجبوری کا فائیدہ اُٹھاکر کرایہ کے نام پر منہ مانگی قیمت وصول کی،اِس وباءنے ہرشخص اور ہرشعبہ کو متاثر کیا ہے لیکن ہمیں ایسا لگا کہ صرف سب سے زیادہ ہم ہی متاثر ہیں، لہٰذا نقصان کی بھرپائی کے لئے ہم نے گراں فروشی، کالابازاری، منافع خوری، کساد بازاری سے کام لیا۔ ہم نے علاج کے نام پر مریضوں کا خون چوسا،بیشتر ادویات جن میں 10فیصد سے لیکر 70فیصد تک کا منافع ہمیں رعایت دیکر بھی ہوتا ہے، پھر بھی ہم نے ایم آر پی یعنی زیادہ سے زیادہ قیمت وصول کی۔ہم نے اسپتالوں میں ہنگامی نوعیت کے آپریشنوںکے نام پر گورکھ دھندا چلایا۔ہم نے ماسک، سینی ٹائزرز، پی پی کٹس کو اپنے تجارتی مقاصد کے لئے استعمال کیا۔ہم نے کورونا کی آڑ میں پروجیکٹوں کو کاغذوں میں مکمل کرنے پر توجہ مرکوز کر دی، ہم نے اپنی شان بنائے رکھنے کے لئے میڈیا کے ایک قافلہ کوساتھ رکھ کر راشن بھی تقسیم کیا۔ ہم بھی عجیب مخلوق ہیں، سوتے وقت معمولی سا ڈراو¿نا خواب دیکھ لیں تو ڈر جاتے ہیں، نیند نہیں آتی لیکن جب بیدار ہوں تو یہ سب ظلم وستم کرتے ہمیں زرا بھر خوف نہیں آتا۔ہم نے ’کورونا وائرس ‘کے نام پر اپنے حریفوں سے بدلہ لینے کی کوشش کی، اُن کے خلاف پولیس یا سول انتظامیہ سے جھوٹی شکایات کیں۔ہم نے جیسے قسم کھائی ہے کہ کچھ بھی ہو، ہم نے نہیں بدلنا۔
شہر وقصبہ جات روزگار کے سلسلہ میں آئے لوگوں نے جب گاو¿ں دیہات کی طرف رُخ کیاتو زمینوں کی لالچ نے دل میں اُبھال مارا۔ کورونالاک ڈاو¿ن کے دوران گاو¿ں دیہات کے اندر زمین کو لیکرہونے والے جھگڑوں میں اضافہ دیکھاگیا۔زنا بالجبر ، عصمت دری، مارپیٹ کی کئی دلسوز وارداتیں دیکھنے اور سُننے کو ملیں۔ تاریخ شاہدہے کہ دور جہالت میں عرب کے اندر بیٹیوں کو زندہ دفن کیاجاتا تھا، لیکن کورونا لاک ڈاو¿ن کے دوران پونچھ میں بھی انسانیت سوز واقعہ پیش آیا جہاں ایک باپ نے اپنی تیرہ سالہ بچی کو مار کر ،کسی کو کانوں کان خبر کئے، خود ہی اُس کو دفن کر دیا، اب وجوہات کیا رہیں او رواقعی یہ گناہ اُس نے کیا ہے، وہ تحقیقات موضوع ہے جس پر پولیس اپنا کام کر رہی ہے ، البتہ ابتدائی تو ہمارے ذہن میں یہ بات عکس کر گئی کہ ’باپ بیٹی کا قاتل‘ نکلا۔زمین کے ٹکڑے پر ہوئی لڑائی کے دوران کئی قتل بھی ہوئے۔ ہم جموں وکشمیر کی بات کریں تو حالیہ دنوں ایسے واقعات سرحدی ضلع پونچھ میں کئی رونما ہوئے۔ گاو¿ں دیہات میں مقابلہ آرائی، ایکدوسرے کو نیچا دکھانا، اُس کی تذلیل کرنا، عزت اُچھالنا، کسی خامی کو تلاش کر کے اُس کا ڈھنڈورا پورے محلہ گاو¿ں میں پیٹنا، کسی کی غریبی، مجبوری، لاچارگی ، سادگی یا پھر شرافت کا ناجائز فائیدہ اُٹھانا عام بات ہے بلکہ اِس میں کورونا لاک ڈاو¿ن کے دوران اضافہ ہی دیکھنے کو ملا۔ ایک طرف دنیا کا ایک بڑا حلقہ اِس وباءسے نجات کے لئے غوروفکر میں مصروف ِ عمل ہے،مصیبت کے ماروں کی مدد اور اُن کا غم ہلکا کرنے کی کوشش ہورہی ہے تو ہم ہیں کہ ایکدوسرے کے لئے مسائل پیدا کرنے کا سبب بن کررہے ہیں۔بحیثیت سرکاری ملازم، افسر، سماجی کارکن، دکاندار، ٹرانسپورٹر،ڈاکٹر، دوافروش، سبزی ومیوہ فروش، دودھ فروش ہم نے اپنے فرائض میں کوتاہی برتنے کا عمل قہرِ الہٰیٰ میں بھی جاری رکھا۔ یہ دنیا فانی ہے اور ہرشخص کو اِس سے چھوڑ کر ایک نہ ایک دن ضرور جانا ہے، پھر کیوں ہم نے اپنی سوچ اِس طرح کی بنا لی کہ ہمیں صدیوں یہیں رہنا ہے۔ ہم تو یہاں مہمان کی طرح آئے ہیں جہاںسے ایک نہ ایک دن واپس لوٹ جانا ہے۔ اِس نکتہ پر غور کریں کہ اِس پل، اِس لمحہ، اس دن، اس تاریخ، اس مہینے اور اِس سال ایک سو برس قبل یعنی ایک صدی پہلے ہم میں سے کتنے لوگ تھے،شاہد ہی کوئی شخص آپ کو اپنے کنبہ، رشہ داروں، خاندان، گاو¿ں، ملک میں ملے، تو کیاایک سوسال بعد ہم میں سے کوئی ہوگا……..“مثال کے طور آج 10جون 2020ہے، کیا 10جون 1920کو ہم تھے یا کیا ہم 10جون2120ہوں گے…………؟؟زرا سا غورو فکر کرنے پر ساری حقیقت آپ کے سامنے آجائے گی۔ مادیت پسندی اور دنیا کی چکاچوند کے برم میںہم اِس قدر پھنس چکے ہیں کہ ہماری کوشش ہے کہ ہمارے پاس ہی سب سے زیادہ دولت ہو،جائیداد ہو، اثاثے ہوں اور اس کے لئے ہم ہرجائز وناجائز طریقہ بھی استعمال کرنے سے گریز نہیں کرتے ۔ ایسا کرتے وقت ہم بھول جاتے ہیں کہ حرام کی دولت کا ہمیں عذاب ہوگا اورحلال کی دولت کا بھی ہم سے حساب ہوگا۔ ہم تو نہ عذاب سہنے اور نہ ہی حساب دینے کی ہمت رکھتے ہیں تو پھر بلا یہ سب کیوں اور کس لئے…………؟؟۔ہم سے جب ہمارے بزرگ ایسی بات کرتے ہیں ہمیں عجیب لگتی ہیں لیکن اِن میں توزندگی کا اصل فلسفہ چھپا ہوا ہوتا ہے۔ اللہ سے دعا کریں کہ ہماری آنکھیں کھل جائیں، ہم دوسروں کے لئے مصیبت ، عذاب نہ بنیں بلکہ باعثِ رحمت ہوں، کسی کی مدد کرنہیں سکتے ، کم سے کم اُس کی مشکلات نہ بڑھائیں، ہر حال میں اللہ رب العزت کا شکر بجالائیں۔ اپنی ذمہ داری اور فرض کو بخوبی نبھائیں، قول وفعل سے وہ کریں جس سے دوسروں کو پیار، محبت، خلوص، ہمدردی ، سکون ملے….آمین۔سب سے مشکل کام خود کی اصلاح کرنا،اپنی خامیوں، کوتاہیوں کو دور کرنا ہے۔ اِس وباءنے ہمیں اپنے آپ سے ملنے کا موقع دیا ہے، چلو اپنی قلبی صفائی کریں، اپنی سوچ، افکارکومثبت بنائیں۔زندگی کا مقصد تلاش کریں اور یہ جاننے کی کوشش کریں کہ اربوں، کھربوں کے انسانو ں میں میری حیثیت کیا ہے اور میر ی پیدائش کیوں اور کس لئے ہوئی اور کیا ہم وہ کر رہے ہیں جو رضاءالہٰی کے مطابق ہے!!
بقول ڈاکٹر علامہ اقبال ؒ
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی
ت±و اگر میرا نہیں بنتا نہ بن، اپنا تو بن
٭٭٭٭
7006541602
ای میل:altafhussainjanjua120@gmailcom