آزادی ِصحافت صرف نام!
الطاف حسین جنجوعہ
7006541602
سال 2010سے راقم الحروف نے عملی طور میدان ِ صحافت میں قدم رکھا، تب سے لیکر آج تک اِس جواب کا متلاشی ہوں کہ آخرآزادی صحافت کس بلا کا نام ہے ۔شاہد بہت سارے بلکہ بیشتر صحافی بھائی میری اِس بات سے اتفاق نہ کریں لیکن یہ حقیقت ہے کہ صحافت سراپا زنجیر میں جھکڑی ہے اور دنیا کے ہر خطہ، علاقہ ، ملک ، ریاست میں وہاں کے مقامی حالات وواقعات کوملحوظِ نظر رکھ کر اِس کے جسم سے چند ایک زنجیریں کھولی گئی ہیں،مگر یہ جیل میں عمر قیدکی سزا کاٹ رہے قیدی کی طرح ہے ، جس پرکبھی سختی تو کبھی نرمی برتی جاتی ہے اور اِس کے لئے وہ حکمرانِ وقت اور جیلر کے تابع ہے۔قومی مفادات، سلامتی، یکجہتی اور سالمیت ہر ایک کے لئے مقدم ہے اور ذمہ دارشہری ہونے کے ناطے اِس کا پاس لحاظ رکھنا ہماری اولین ترجیحی ہونی چاہئے کہ لیکن آج کل اِن اصطلاحات کا دائرہ ومفہوم خاص کر ہمارے ہاںبہت وسیع کردیاگیا ہے کہ ان کے نام پر آپ کو اپنی آنکھوں کے سامنے ہورہے ظلم وستم ، نا انصافی، ذیادتی، حق تلفی، تشدد وجبر کو نظر انداز کرنا پڑتاہے۔آپ کو نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے ضمیر کو مارکر اِن پر کچھ تحریر یا رپورٹ کرنے سے گریز کرنا پڑتاہے۔گاو¿ں سے لیکر ایوانِ اقتدار تک ایسا کہاں، کب ، کیسے، کیوں اور کس لئے کیاجاتاہے، صحافی حضرات یہ بخوبی جانتے ہیں۔عصر حاضر کی صحافتی دنیا میں پیشہ وارانہ ڈگری یا مہارت رکھنے والوں کے لئے جگہ تنگ ہوتی جارہی ہے کیونکہ دورانِ تعلیم جوصحافتی اصول، قواعد وضوابط، رہنما خطوط انہیں پڑھائے جاتے ہیں،یا انہوں نے سیکھے ہیں انہیں کتابوں میں ہی دفن کر کے دورِ حاضر میں رائج اصولوں کے سانچے میں خود کو ڈالنا پڑتا ہے ، جس نے ایسا کرلیا ، وہی کامیاب چاہئے وہ نا خواندہ ہی کیوں نہ ہو۔
میڈیا بھی ایک صنعت کے طور پر اُبھر کر سامنے آئی ہے جس میں کارپوریٹ گھرانوں اور سرمایہ دار شامل ہوچکے ہیں جوکہ اب صحافت کے مقدس پیشہ کو تجارت کے طور استعمال کرتے ہیں۔ تجارت کا یہ اصول ہوتا ہے کہ اِس میں اپنے مفادات کو ہمیشہ ملحوظ ِ نظر رکھاجاتاہے اور اس کے لئے سمجھوتے بھی کئے جاتے ہیں ۔تاریخ شاہد ہے کہ حکمرانوں کے ہاتھوں عوام کے ساتھ ہردور میں زیادتی، نا انصافی ہوتی رہی ہے۔ میڈیا کا یہ کام ہے کہ اِس کو اُجاگر کر ئے اور حکمرانوں کو صحیح آئینہ دکھائے ، مظلوم ومحکموم، کمزور کی آواز بنے، لیکن آج اُس کے الٹ ہے۔ اول سرکاری اشتہارات کے نام پر میڈیا گھرانوں کو حکومتِ وقت نے اپنے تابع رکھا ہے جس نے اُس کے گن گائے اور ہرجائز وناجائز کو سرکار کی منشاءکے مطابق پیش کیا ، اُس کی پیٹھ تھپتھپائی جاتی ہے اور جو صحافتی اصولوں پر عمل پیرا ہوکر عوامی مسائل کی صحیح ترجمانی کرکے اور ظلم وزیادتیوں کے خلاف آواز اُٹھائے اُس کی منظم طریقہ سے حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ اپنی بقاءکی خاطر بیشتر میڈیا گھرانوں کو حکومت ِ وقت کے ساتھ یہ بڑا سمجھوتہ کرنا پڑتاہے۔دوم آج ہر میڈیا ادارے کی اپنی پالیسی ہے۔ صحافت مذہب وملت، رنگ ونسل، ذات پات، علاقہ ، عقید ہ، نظریہ سے اُوپر اُٹھ کر بات کرنے کا نام لیکن لیکن آپ اگر مشاہدہ کریں تو عصرِ حاضر میں ہرپرنٹ والیکٹرانک میڈیا ہاو¿س کی اپنی پالیسی ہے جس میں وضع ہے کہ کس شخص کو پرموٹ کرنا ہے، کس علاقہ، مذہب، ذات یا جماعت کی بات کرنی ہے، سب طے ہوتا ہے اور ایک صحافی کواپنا صحافتی کیرئیر شروع کرتے وقت بنے بنائے سانچے میں خود کو ڈالنا پڑتا ہے۔ آج سچائی بتانے سے زیادہ اُس کو چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے ،جوٹیلی ویژن چینل یا سوشل میڈیا گروپس جھوٹ کو جو جتنے بہترین انداز میں پیش کرتے ہیں، وہی Trendingمیں آتے ہیں اور ٹی آر پی بڑھتی ہے۔آج ہر کوئی کسی نہ کسی نظریہ، مشن، آئیڈیالوجی کی آبیاری کرنے میں لگا ہے اور رائے عامہ کو متاثر کرنے کے لئے طرح طرح کے طریقے استعمال کئے جاتے ہیں۔سوم ….آج حالات ایسے بن چکے ہیں یا بنا دیئے گئے ہیں کہ فیلڈ میں کام کرنے والے صحافی سب سے پہلے اِس بات کو ترجیحی دیتا ہے کہ چند پولیس یا سول انتظامیہ کے افسران ،سیاسی لیڈران یا متعلقہ علاقہ میں اثررسوخ رکھنے والے افراد کی نظر میں وہ اچھا ہو،جس کے لئے اُن کے روزمرہ امور کی رپورٹنگ پر خاص توجہ دی جاتی ہے جس کو ہم دوسرے الفاظ میں شخصی صحافت ‘ بھی کہ سکتے ہیں، ایسا کرتے وقت ہم ’شخصیات ‘کوعوامی مفادات پر ترجیحی دے دیتے ہیں۔اس میں مسئلہ یہ ہے کہ انتظامیہ کے عہدیداران کے تو کچھ وقفہ کے بعد تبادلے ہوجاتے ہیں، پھر نئے کے رنگ میں خود کو رنگنا پڑتاہے۔ سیاسی لیڈران میں بھی ہماری توجہ برِسراقتدار جماعت والوں پر زیادہ ہوتی ہے، پھر یہ جب اقتدار کے گلیاروں سے نیچے اُترتے ہیں تو اب اُن لیڈران کی طرف ہماری توجہ جاتی ہے جو پہلے اگر چہ عوامی مفادات کی بات کرتے بھی تھے، حکومتِ وقت کی زیادتیوں وناانصافیوں کو اجاگر کرتے تھے، جنہیں ہم نظر انداز کر دیاکرتے تھے۔ جو صحافی حضرات ایسا نہیں کرتے عوامی سطح پر پذیرائی تو ملتی ہے لیکن انتظامیہ اور مسندِ اقتدار حکمران اُس کو تسلیم کرتے ہیں ، حوصلہ افزائی اور نہ اعتراف ۔لیکن اگر آپ تاریخ اُٹھا کر دیکھیں صحافت میں جن اداروں اور صحافیوں نے عوامی اعتبار واعتمادیت حاصل کی ، اُنہیں کو عزت بھی ملی اور لمبے عرصے تک اُن کی خدمات کو بھی یاد کیاگیا۔درحقیقت صحافت حقائق کو اصل نوعیت میں صحیح اعدادوشمار کے ساتھ عوام کے سامنے لانے کا نام ہے جس میں مذہب، سیاسی نظریات، رشتوں، جذبات ، شخصیات کو درکنا رکھ کر غیر جانبداری سے کام لیاگیا ہو۔چاہئے یہ خبر کسی ایک شخص کے حق میں ہی کیوں نہ ہو۔اگر آپ کسی ایک شخص کے ساتھ بھی ہورہی نا انصافی، زیادتی اور اُس کی حق تلفی کو چھپاتے ہوتو پورے معاشرے اور ملک کے ساتھ زیادتی کے مترادف ہے۔جب تلک صحافت چاہے وہ پرنٹ ، الیکٹرانک یا سوشل میڈیا ہو، اُس میں وسیع ترعوامی تعاون سے کوئی پلیٹ فارم تیار نہیں ہوتا ، اُس وقت تک آزادی ِ صحافت کا تصور بے معنی ہے اور ایسا شاہد ہو بھی نہ سکے۔آج کے دور میں شعبہ صحافت میں بنے رہنا ’سمجھوتوں اور ضمیر ‘کو مارنے کا نام ہے اور جوصحافی یا ادارہ اِن الفاظ سے مستثنیٰ ہے ، اُس سے صحافتی اصولوں کی پاسداری اور آزادی ِ صحافت کی توقع کی جاسکتی ہے۔صحافتی شعبہ کا جو آج حشر ہے ، وہ کسی ایک ملک ، ریاست کا علاقہ تک محدود نہیں بلکہ عالمی سطح پر اِس کو ہائی جیک کیاگیاہے، لہٰذا اِس سے جڑے سبھی بھائیوں سے یہی گذارش ہوگی کہ آپ جہاں ، جس ادارہ کے ساتھ بھی کام کرتے ہیں، وہاں آپ کو تھوڑی بہت جو آزادی میسر، اُس میں بھی اپنے صحافتی اصولوں کی پاسداری کو یقینی بنانے کی کوشش کریں۔آزادیِ صحافت کا عالمی دن ہر برس 3مئی کو منایاجاتا ہے ،ہر بار اِس سوال کے جواب میں بہت کچھ لکھا، کہا اور سنا جاتا ہے مگر یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے اوربحث ومباحثہ ، تحقیق وغوروفکر کے بعد اِسی جملہ پر بات آکر ختم ہوتی ہے کہ ”آزادیِ صحافت صرف نام ہے“۔
٭٭٭
نوٹ:کالم نویس صحافی اور وکیل ہیں
ای میل؛[email protected]