کورونا مخالف جنگ:’خوراک اور طبی خدمات‘
الطاف حسین جنجوعہ
9697857746
سال2019کے ماہ نومبر وسط میں چین کے شہر وہان سے جنم لینے والی بیماری جس کو آج بچہ بچہ ’کویڈ۔19یا کورونا وائرس‘سے جانتا ہے، نے انٹارٹیکہ کو چھوڑ کر دنیا کے چھ بر اعظموں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔عالمی وباءنے امیروغریب، ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک، حاکم ومحکوم سبھی کو ایک ہی صف میں لاکھڑ ا کر دیا ہے۔فی الحال اِس سے نجات ملنے کے آثار نظر نہیں آرہے، کھوج جاری ہے پر زیادہ توجہ احتیاطی اقدامات پر ہی دی جاری ہے۔کورونا کے بارے میں دنیا کے غیر سنجیدہ رویے نے اسے اس سطح تک پہنچایا ہے کہ یہ حقیر سا جرثومہ پوری عالمی معیشت کو لے بیٹھا ہے۔مصیبت کی اِس گھڑی میں دنیا بھر کی بیشتر مملکتوں نے ذاتی اختلافات، رنجشوںکو درکنار رکھ کر اپنے حریفوں سے بھی ہاتھ ملالیا ہے تاکہ اِس مصیبت سے نجات کی کوئی سبیل نکالی جاسکے کیونکہ وہ سمجھ چکے ہیں کہ اِس وباءکا تعلق کسی خطہ، ملک ، مذہب یا ذات سے نہیں ہے بلکہ یہ انسانیت کے لئے خطر ہ ہے، پر افسوس کے روایتی حریف انڈیا اور پاکستان مصیبت کی اِس گھڑی میں بھی اپنے گلے شکوے دور نہیں کرسکے۔کم سے کم سرحدوں پر فائرنگ کا تبادلہ ہی کچھ دیر رُک جاتا توغنیمت تھالیکن ایسا نہیں ہورہا، جموں وکشمیر میں کنٹرول لائن پر کیرن، اوڑی سے لیکر پونچھ راجوری تک سرحدیں آگ اُگل رہی ہیں، کوئی دن خالی نہیں ہوتا جب ایل او سی پر کسی نہ کسی جگہ فائرنگ نہیں ہوتی۔سرحدی مکین چوطرفہ موت کے چنگل میں پھنس چکے ہیں، جہاں سے راحت کی کوئی اُمید نظر نہیں آتی۔ پڑوسی کے ساتھ تعلقات میں کھٹاس برقرار ہونے کے ساتھ ساتھ ’انڈیا‘میں اندرونِ ملک بھی اتفاق واتحاد کا واضح فقدان نظر آرہاہے،اگر چہ سماج کا ایک بڑا حلقہ اِس دوری کو مٹانے کی خواہش رکھتا ہے اور عملی کوششیں بھی ہوتی ہیںمگر ذمہ دارو بااختیار لوگ ایسا ہونے نہیں دے رہے۔بدقسمتی سے اِس وباءکو بھی فرقہ وارانہ رنگت دے دی گئی، پچھلے ڈیڑھ ہفتہ سے خودساختہ محب وطن ٹیلی ویژن چیلنجز، اخبارات میں اِس پر خوب تبصرے ہورہے ہیں، کارٹون شائع کرکے ایک طبقہ کو ہی اِس بیماری کے لئے مورد الزام ٹھہرایاجارہاہے۔
دانشوروںکا ماننا ہے کہ اگر آپ خوش رہنا چاہتے ہیں یا دوسروں کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں تو دوسروں کی خامیوں اور کمیوں کو نظر انداز کر کے اُن میں پائی جارہی اچھائیوں کو تلاش کریں اور پھر اُس کی تعریف کریں ،ایسے موقع کی تلاش کریں کہ آپ دوسروں کی اچھائی ڈھونڈ لیں اور پھر اُس کی تعریف کردیں لیکن اِس کے اُلٹ کچھ لوگ لاکھ اچھائیوں کے باوجود دوسروں میں خامیاں ڈھونڈنے کی ہی کھوج میں لگے رہتے ہیں ،اور ایسا کرنے میں انہیں مہارت حاصل ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے انڈیا کے حکمرانوں، پالیسی سازوں، منصوبہ سازوں اور بااثر حلقہ میں ایسے افراد کی تعداد اچھی خاصی میں ہے،جس کی وجہ سے یہاں ہرحال میں مخصوص طبقہ، حلقہ یا خطہ کو تنقید کا نشانہ بنانے کی ہی کوشش کی جاتی ہے۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ سال2014کے بعد انڈیا میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی، آپسی بھائی چارہ، مذہبی رواداری متاثرہوئی اور بین المذاہب خلیج بھی بڑھتی گئی جس سے ملکی وعالمی سطح پر اہلِ ہند کے تئیں کافی منفی تاثرات قائم ہوئے ۔ کوروناوائرس کی صورت میں پوری قوم کے پاس موقع غنیمت تھا کہ وہ اِس صورتحال کو بہتر بنانے کی کوشش کرتی ، مگر اِس میں بھی ہم نے نفرت کا کاروبارشروع کردیا جس کی ٹیلی ویژن چینلوں سے خوب بکری ہورہی ہے۔حالانکہ جس بحث میں ہم پڑچکے ہیں، وہ لاحاصل ہے اور یہ کویڈ۔19مخالف لڑائی میں کسی بھی صورت ہماری مددگار ثابت نہیں ہوسکتی ،ایسا کرنا تو صرف تلخ حقائق کو جھٹلانا اور اُن کے تئیں غیر سنجیدگی کا مظاہرہ ہے۔
بھارت میں معیشت کے حوالہ سے جو صورتحال بنی ہوئی ہے وہ سب کے لئے تشویش کن ہے۔ ملکی معیشت پہلے ہی مشکلات میں ہے اور لاک ڈاو¿ن کی وجہ سے ہزاروں لوگ ایک ہی دم بےروزگار ہوگئے ہیں۔21 روزہ لاک ڈاو¿ن کے اعلان نے دیہاڑی دار مزدور طبقہ کو نان شبینہ کا محتاج کر دیاہے ۔ یہ طبقہ انڈیا میںغیر منظم غیر رسمی معیشت کا حصہ ہے جس میں 94 فیصد لوگ کام کرتے ہیں اور ملکی پیداوار میں ان کا 45 فیصد حصہ ہے۔ایک وقت میں دنیا کی تیز ترین بڑھتی ہوئی معیشتوں میں سے ایک، انڈیاکا گذشتہ سال بھی مجموعی پیداوار میں اضافے کا تناسب 4.7 فیصد تھا جو کہ گذشتہ چھ سالوں میں سب سے کم تھا۔بےروزگاری پچھلے 45 سال کی اونچی ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ 8 مرکزی صنعتی سیکٹروں میں پیداوار 5.2 فیصد کم ہوگئی ہے جو کہ گذشتہ 14 سال میں بدترین پرفارمنس ہے۔ چھوٹے کاروبار تو ابھی 2016 کے متنازع نوٹ بندی قانون کے جھٹکے سے واپس آ رہے تھے۔ زراعت کا شعبہ انڈیا کی معیشت میں 265 ارب ڈالر کی پیداوار کا حصہ دار ہے، کو بھی خطرہ لاحق ہے۔سینٹر فار ایشیا پیسفک ایویایشن کے ایک اندازہ کے مطابق بھارت کی ہوابازی کی صنعت اس سال 4 ارب ڈالر کا نقصان اُٹھائے گی۔اور پھر اس سے جڑی ہوٹلنگ کی صنعت، سیاحت کی صنعت، ریستوران سبھی کو مشکلات ہوں گی۔ ملک بھر کے ہوٹل خالی پڑے ہیں اور کئی ماہ تک ایسے ہی رہیں گے جس کی وجہ سے لوگوں کی نوکریاں چھوٹنے کے خدشات سامنے آ رہے ہیں۔کاروں کی صنعت میں 2 ارب ڈالر کا نقصان متوقع ہے۔
بیروزگاری روز افزوں ہے، دنیا بھر میں حکومتیں معیشت کو سہارا دینے کیلئے اقتصادی پیکیج دے رہی ہیں۔ آئی ایم ایف کی سربراہ کرسٹا لینا کا کہنا ہے کہ کورونا کے باعث ایسا اقتصادی بحران پیدا ہو رہا ہے جس سے نمٹنے کیلئے بڑے پیمانے پر اقدامات کرنا ہوں گے۔ کوئی شک نہیں کہ وائرس پر قابو پانے کیلئے عالمی معیشت شٹ ڈاﺅن ہو کر رہ گئی ہے، عالمی بینک کا تخمینہ ہے کہ یہ وبا اب تک دنیا کو 10کھرب ڈالر کا نقصان پہنچا چکی ہے۔ عالمی ادارے آکسفم (OXFAM)نے اس حوالے سے خبردار کیا ہے کہ کورونا وائرس سے پیدا ہونے والے معاشی اثرات عالمی غربت میں تقریباً نصف ارب تک کا اضافہ کر سکتے ہیں۔ آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی اور کنگز کالج لندن کی تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے آکسفم کا کہنا ہے کہ یہ 30سال میں پہلی مرتبہ ہوگا جب عالمی سطح پر غربت میں اضافہ ہوگا۔ رپورٹ کے مطابق اس وائرس سے پیدا ہونے والے حالات کے سبب معاشی بحران طبی بحران سے کہیں زیادہ شدید ہو گا اور عالمی سطح پر غربت میں بڑے اضافے کا باعث بنے گا۔ آکسفم کی رپورٹ کے تناظر میں ماضی کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ نوع انسانی کو کسی اور آفت یا جنگوں نے اتنا نقصان نہیں پہنچایا جتنا وائرس، بیکٹیریا اور پیرا سائٹس نے پہنچایا۔ چھٹی صدی عیسوی میں طاعون 5کروڑ افراد یعنی تقریباً دنیا کی نصف آبادی چاٹ گیا۔ 20ویں صدی میں چیچک 30کروڑ افراد کو لقمہ اجل بنا گیا۔ 1918ء میں انفلوئنزا سے 5سے 10کروڑ افراد موت کے منہ میں چلے گئے۔ 1928ءمیں پنسلین کی دریافت سے لاکھوں جانیں بچیں مگر دوسری طرف جراثیم کی قوت بھی اینٹی بایوٹکس سے بڑھ گئی۔
اگر دنیا کے معاشی طور پر مستحکم ممالک کو کورونا وائرس نے ہلاکر رکھ دیا ہے تو پھر ہم کِس باغ کی مولی ہیں، ترقی یافتہ ممالک اور سپرپاور امریکہ کی صورتحال کو پیش نظر رکھ کر انڈیا کا جائزہ لیا جائے تو شاید کسی تبصرے کی گنجائش ہی نہیں۔ البتہ ان حالات میں اس امر کی ضرورت ہے کہ حکومت سیاسی ، نظریاتی وفرقہ وارانہ اختلافات سے بالائے طاق رکھ کر ملک کی فکر پر توجہ مرکوز کرے تاکہ ممکنہ حد درجہ مہنگائی، بیروزگاری اور معاشی لاغری سے بچنے کے لئے کوئی سبیل نکالی جاسکے۔ وزیر اعظم نریندر مودی میں یہ صلاحیت ہے کہ اگر وہ مشکل کی اِس گھڑی میںپورے قوم کو متحدکرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں، اگر پورے ملک کے لوگ اُن کے کہنے پر تھالیاں، تالیاں بجاسکتے ہیں اور دیئے جلاسکتے ہیں تو پھر اُن کے کہنے پر فرقہ وارانہ ذہنیت رکھنے والے لوگ تعصب ، بغض ، کینہ کو دور کرکے انسانیت کی بقاءکے لئے سوچ سکتے ہیں لیکن اِس کے لئے اخلاص، صدق دلی،نیک نیتی کی ضرورت ہے۔
حکومت کو چاہئے کہ سبھی سیاسی جماعتوں کے ساتھ میٹنگ کی جائے،تاجروں، صنعتکاروں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت ہو اور سبھی مذاہب کے سرکردہ لیڈران کا بھی مشترکہ اجلاس طلب کر کے کورونا مخالف وباءسے لڑائی نیزلوگوں تک راشن پہنچانے کے لئے مشترکہ طور پر حکمت عملی واضح کی جائے تاکہ اگر لاک ڈاو¿ن آئندہ دو ماہ بھی رہے تو کم سے کم بھوکمری کی نوبت تو نہ آئے۔اس حقیقت کو جھٹلانا ممکن نہیں کہ بھوک موت سے بھی کہیں زیادہ تلخ ہے، موت ایک مرتبہ مارتی ہے لیکن بھوک ہر آن، ہر لمحہ زندگی کو موت سے بھی زیادہ اذیت ناک بنا دیتی ہے۔ کورونا وائر س وباءلاک ڈاو¿ن جس طرح طول پکڑتا جارہاہے اِس سے آنے والاوقت بہت بُرا آنے والا ہے ۔بھارت میں فلاحی اداروں، غیر سرکاری رضاکار تنظیموں، مذہبی تنظیموں، اداروں کی کمی نہیں اور ماشااللہ ءاِن کے پاس وسائل بھی دستیاب ہیں۔ضرورت اِس امر کی ہے حکومت ، انتظامیہ ایسے اداروں کے ساتھ مل کر منظم طور پر مستقل کا لائحہ عمل ترتیب دیں۔اس کے لئے ریاستی، صوبائی ، ضلع وتحصیل سطح پر مشترکہ کمیٹیاں بنائی جائیں۔ اُن کنبہ جات جنہیں راشن ودیگر ضروریات کی اشد ضرورت ہے کی پنچایتی ممبران ، مال ، دیہی ترقی اور امور ِ صارفین محکمہ جات کے اشتراک سے ایک فہرست تیار کی جائے۔ اُس کے بعد حکومت اور مختلف تنظیموں، اداروں کے پاس دستیاب وسائل کی جامع رپورٹ مرتب کر کے متاثرہ کنبہ جات میں سامان تقسیم کیاجائے۔یہ اچھی بات ہے کہ بہت ساری تنظیمیں، رضاکار اور صاحب ثروت لوگ اِس وقت غریب اور ضرورتمندوں تک اپنی استطاعت کے مطابق امداد پہنچانے کی ہرممکن کوشش کر رہے ہیں لیکن دیکھنے میں یہ بھی آیا ہے، چند علاقوں میں ہی باربار امداد پہنچ رہی ہے۔ انتظامیہ اور سماجی ، فلاحی تنظیموں کے درمیان تال میل نہیں ہے۔سبھی ضرورتمندوں تک پہنچنے کے لئے متحد، مشترکہ اور جامع حکمت عملی درکار ہے۔
حکومت کو چاہئے کہ پارلیمان کا ہنگامی اجلاس طلب کر کے دیگر شعبہ جات وترقیاتی پروجیکٹوں کے لئے مختص رقومات کو بھی ’کوروانا وائرس ‘مخالف لڑائی لڑنے اور غریب وضرورتمندوں تک راشن پہنچانے کے لئے استعمال میں لانے کے لئے قانون پاس کیاجائے۔ترقیاتی کام بعد میں بھی ہوسکیں گے لیکن اگر انسان ہی نہیں بچے، یا وباءنے سنگین صورتحال اختیار کر لی تو نتائج دورس ہوسکتے ہیں۔ملک بہت پیچھے چلا جائے گا۔ملک کے پاس وسائل ، رقومات کی کمی نہیں، صرف انہیں حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے موثر حکمت عملی کے ساتھ استعمال میں لانے کی ضرورت ہے۔اِس وقت خوراک اور طبی خدمات‘کی دستیابی کوسب سے زیادہ ترجیحی دینے کی ضرورت ہے ۔
٭٭٭٭٭
نوٹ:کالم نویس روزنامہ اُڑان کے ایگزیکٹیو ایڈیٹر اور وکیل ہیں
ای میل:[email protected]