وینٹی لیٹر!
الطاف حسین جنجوعہ
9697857746
کرونا وائرس وباءسے پوری دنیا میں نظامِ زندگی تھما ہے، سبھی بڑے شہر، بازاروکاروباری مراکز مقفل ہیں جبکہ سڑکیں اور گلیاں بھی ویرانی کا منظر پیش کر رہی ہیں۔ابھی تک اِس بیماری کا کوئی علاج نہیں نکل سکا ہے، کھوج جاری ہے، زیادہ تر لوگوں کی نظریں اہلِ مغرب بالخصوص سپر پاور امریکہ کے سائنسدانوں پر مرکوز ہیںکہ وہ کب ’انسدادِ کوویڈ۔19‘دوا تیار کرتے ہیں، فی الحال اس کا علاج صرف احتیاطی تدابیر کے طور’گھروں میں رہنا اور سماجی دوری اختیار کرنا ہی ہے جس پر عمل آوری کو یقینی بنانے کے لئے بیشتر ممالک کی حکومتیں توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں‘۔
کرونا وائرس وباءنے جب پوری دنیا کواپنی لپیٹ میں لیا تو سب سے زیادہ جس چیز کی شدت سے ضرور ت محسوس کی گئی اور جو مشین سب سے زیادہ موضوعِ بحث بنی وہ ہے ’وینٹی لیٹر‘یعنی کہ سانس کامصنوعی طریقہ کار۔یوں تو کرونا وائرس کے 80فیصد مریض معمولی بیمار ہوتے ہیں اور بغیر علاج کے خود ہی صحت یاب ہوجاتے ہیںالبتہ معتبر طبی جریدے نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق کرونا وائرس کا شکار بننے والے 5فیصد مریض ہنگامی طبی امداد کے مراحل میں پہنچ جاتے ہیں اور اُن میں سے نصف کویعنی کل تعداد کے ڈھائی فیصد کو وینٹی لیٹر کی ضرورت پڑتی ہے۔ایک اورتحقیق کے مطابق کووڈ 19کے مریضوں کی ایک قلیل تعداد پھیپھڑوں کی شدید بیماری ’ایکیوٹ ریسپائریٹری ڈسٹریس سنڈروم(اے آر ڈی ایس)‘میں مبتلا ہوجاتی ہے۔ اس بیماری میں پھیپھڑے سوز ش کا شکار ہوجاتے ہیں اور ان کی تھیلیوں میں پانی بھر جاتا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ پھیپڑے اپنا فعل انجام نہیں دے سکتے۔ یعنی دوسرے الفاظ میں جسم کو آکسیجن فراہم کرنے میں ناکام ہوتے جاتے ہیں۔ یہ ایک انتہائی خطرناک صورتحال ہوتی ہے جس کے تدارک کے لئے مریض کو مصنوعی طریقے سے وینٹی لیٹر کے ذریعے آکسیجن فراہم کی جاتی ہے۔
وینٹی لیٹر ایک پیچیدہ مشین ہے، جس کے تین بڑے حصے آکسیجن سلنڈر، کمپریسر اور کمپیوٹر ہیں۔ ایک نلکی مریض کی ناک یا منہ سے گزار کر پھیپھڑوں تک پہنچائی جاتی ہے، جس کے بعد کمپریسر کے ذریعے آکسیجن سلنڈر سے آکسیجن براہِ راست مریض کے پھیپھڑوں تک فراہم کی جاتی ہے۔ ایک اور نلکی کاربن ڈائی آکسائیڈکو پھیپھڑوں سے نکال کر باہر لے آتی ہے۔وینٹی لیٹر ہوا کے اندر حسبِ ضرورت آکسیجن شامل کر کے مریض کے پھیپھڑوں تک براہِ راست بھیجتا ہے۔ عام طور پر مریض سانس خود باہر نکالتا ہے لیکن اگر سانس لینے کا عمل مکمل طور پر معطل ہوچکا ہے تو وینٹی لیٹر سانس باہر بھی نکال سکتا ہے اور یوں مریض کے پھیپھڑوںکا کام کرنے لگتا ہے۔چونکہ شید بیماری مریض کی خاص توانائی سانس لینے اور باہر نکالنے پر خرچ ہوجاتی ہے، اس لئے وینٹی لیٹر اس کے لئے سانس لے کر صحت بحال کرنے کے عمل کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔ وینٹی لیٹر کا ایک اور فائیدہ یہ ہے کہ اس کی مدد سے پھیپڑوں کے اندر دباو¿ برقرار رکھاجاسکتا ہے تاکہ وہ پچک نہ جائیں۔ وینٹی لیٹر کی ٹیوب کی مدد سے پھیپھڑوں میں جمع ہونے والا پانی باہر نکالا جاسکت اہے۔ اس دوران ایک مخصوص کمپیوٹر اس سارے عمل کی نگرانی کرتا ہے اور مریض کی ضرورت کے مطابق آکسیجن کی ترسیل میں کمی پیشی لاتا رہتا ہے۔
مذکورہ اہم مشین کے حوالہ سے جواعدادوشمار سامنے آئے وہ حیران کن تھے ،دنیا کے چند ہی ممالک ایسے ہیں جن کے پاس ضرورت کے مطابق وینٹی لیٹر کی یہ سہولت دستیاب ہے، جن کے پاس کمی ہے اُن میں کئی ترقی یافتہ ممالک بھی شامل ہیں۔ وسطی ایشیاءبالعموم اور بالخصوص برصغیرِ ہند میں تو اِس کی بہت زیادہ قلت ہے۔ترکی وزارت صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق ترکی میں ہر ایک لاکھ افراد کے لئے 46انتہائی نگہداشت یونٹ کے بستر موجود ہیں جبکہ امریکہ جیسی سپر پاور کے پاس ایک لاکھ افراد کے لئے 37اور ایک ارب سے زائد آباد والے ملک بھارت میں ایک لاکھ افراد کے لئے 2آئی سی یو ہیں،سوا ارب آبادی والے ملک بھارت میں محض 40ہزار وینٹی لیٹرز ہیں۔ مرکزی زیر انتظام جموں وکشمیر میں 1.25کروڑ آبادی کے لئے محض223وینٹی لیٹرز (132کشمیر اور91جموں میں )دستیاب ہیں جبکہ جموں وکشمیر میں کم سے کم 500وینٹی لیٹرز درکار ہیں۔حیرانگی کا مقام ہے کہ جو وینٹی لیٹرز دستیاب بھی ہیں، اُن میں سے متعدد تکنیکی خرابی کی وجہ سے غیر فعال ہیں۔ دور دراز علاقہ جات میں قائم اسپتالوں کی بات کی جائے تو صورتحال اِس سے بھی تشویش کن ہے۔صوبہ جموں کے سرحدی اضلاع پونچھ اور راجوری جنہیں عرف میں’خطہ پیر پنچال‘کہاجاتاہے، میں قریب پندرہ لاکھ سے زائد آبادی کے لئے 2وینٹی لیٹرز ہیں ، وہ بھی صرف گورنمنٹ میڈیکل کالج اینڈ اسپتال راجوری میں، جبکہ پونچھ ضلع کے اندر ایک بھی نہیں۔سرکاری اسپتالوں میںجو وینٹی لیٹرز دستیاب ہیں، وہ تو مریضوں کو اگر چہ مفت فراہم کئے جاتے ہیں لیکن اس میں زیادہ Priority(ترجیحی)اثر رسوخ رکھنے والوں، افسران، امیروں کو ملتی ہے جبکہ ایک غریب مریض کووینی لیٹرملنا’ٹیڑھی کھیر‘کے مترادف ہے، پرائیویٹ اسپتالوں میں وینٹی لیٹرز کے لئے ایک دن کے کم سے کم 10سے13ہزار روپے وصول کئے جاتے ہیں جوکہ ایک غریب کیا متوسط طبقہ کے لئے بھی دینا ممکن نہیں۔ وینٹی لیٹر کی قیمت لاکھوں میں ہے۔ بھارت میں تیار ہونے والے وینٹی لیٹرز کی اوسطاًقیمت5-7لاکھ روپے کے درمیان ہے۔
اِس ہنگامی طبی صورتحال نے دنیا کی کئی حکومتوں اور قوموں کو یہ دعوتِ فکر دی ہے کہ وہ اپنی خامیوں، کوتاہیوں کو درست کرنے کے ساتھ ساتھ خود اورآنے والی نسلوں کے لئے موثردیرپا حکومت عملی مرتب کریں۔ بہت سارے ممالک نے اپنے صحت ڈھانچہ کو مضبوط ومستحکم بنانے پر توجہ دینا شروع کی ہے جس کے لئے اب طویل اور قلیل مدتی منصوبہ بندی پر کام ہورہا ہے، مثلاً طبی ونیم طبی عملہ کی قلت کو دور کرنا، اسپتالوں کے اندر سبھی اقسام کی تشخیصی سہولیات وحیات بخش مشینری اور ادویات کی دستیابی وغیرہ شامل ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ ہم علاقائی سطح پر بھی سماجی ذمہ داری کے طور پر سرکاری استپالوں میں ضروری طبی سہولیات کی فراہمی کے لئے اپنا مالی تعاون دیں۔ اللہ کے فضل وکرم سے ہمارے آس پاس صاحب ِ ثروت لوگوں کی تعداد کم نہیں۔پنچایتی ممبران، سابقہ لیجسلیچرز، مذہبی رہنما، علماءدین، سماجی کارکنان، سول سوسائٹی ممبران، سنیئر سٹیزن اور معززین علاقہ کو چاہئے کہ وہ اِس کے لئے پہل کریں، اپنے اپنے علاقوں میں رائے عامہ ہموار کریں۔ چندہ کی صورت میں پیسے جمع کئے جائیں تاکہ ضلع اسپتالوں میں کم سے کم 10اور سب ضلع اسپتال سطح پر کم سے کم 5وینٹی لیٹرز کی خریداری ممکن ہوسکے۔ہرچیز کے لئے حکومت کا انتظار نہیں کیاجاسکتا، وہ بھی ایسے نظامِ حکومت میں جہاں اگر کسی اسکیم کے تحت 100روپے خزانہ عامرہ سے واگذار ہوتے ہیں تو مستفید تک بمشکل 10روپے پہنچتے ہیں۔ایک ضلع کے اندر اس طرح عوامی سطح پر ایک یا دو کروڑ روپے جمع کرنا کوئی بڑی بات نہیں، بس اس کے لئے عزم اور پہل کی ضرورت ہے۔یہ ایک بہت بڑا کارِ خیر ہوگا۔اس کے لئے مذہبی عبادت گاہوں میں بھی چندہ کیاجاسکتاہے،( پرائیویٹیائزیشن، گلوبل آئزیشن اور اربنائزیشن )کے اِس دور میں حکومت سے یہ توقع کرنا کہ وہ سرکاری اسپتالوں کو بہتر طبی سہولیات سے لیس کرے گی، غلطی ہوگی کیونکہ ہر دورِ حکومت میں چند زر خریدضمیر فروشوں کی وجہ سے ہمیشہ نجی کاری کو فروغ دینے پر زیادہ توجہ رہتی ہے اور حوصلہ افزائی بھی پراوئیویٹ سیکٹر کی ہی ہوتی ہے۔ ہم حکومت کی لاپرواہی، غیر سنجیدگی سے آنکھیں بند کر کے عام لوگوں کو سرکاری اسپتالوں میں مرنے کے لئے نہیں چھوڑسکتے۔ اپنی سماجی ، اخلاقی، انسانی اور مذہبی ذمہ داری سمجھ کر حیات بخش مشینری اور جدید ترین تکنیک سے لیس تشخیصی لیبارٹریوںکی سرکاری اسپتالوں کے اندر دستیابی کو یقینی بنانے کے لئے ہمیں عملی پہل کرتے ہوئے ڈونیشن کی تجویز پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔!
٭٭٭
نوٹ:مضمون نگار روزنامہ اُڑان کے ایگزیکٹیو ایڈیٹر اور وکیل ہیں
ای میل:[email protected]