3
وکلاءکی غیر معینہ ہڑتال اور انٹری گیٹ مقفل کرنے کا معاملہ
عدالت عالیہ کی از خود کارروائی
ہڑتال کوغیر قانونی قرار دیا، احتجاجی وکلاءکو وجہ بتاو¿ نوٹس ، ہائی کورٹ اور ضلع عدالتوں میں سینٹرل سیکورٹی فورسزکی تعیناتی کا حکم
الطاف حسین جنجوعہ
جموں//جموں وکشمیر ہائی کورٹ نے اراضی اندراج اختیارات عدلیہ سے چھین کر ایگزیکٹیو مجسٹریٹ کو دینے کے خلاف وکلاءکی 41روز سے جاری ہڑتال کا ’Suo Motu رٹ پٹیشن ‘کے ذریعے از خود نوٹس لیتے ہوئے غیر ضروری ہڑتال کے ساتھ ساتھ عدالتی کام کاج میں رکاوٹیں حائل کرنے پر وکلاءکو توہین عدالت نوٹس جاری کیا ہے۔عدالت عالیہ نے وکلاءکی ہڑتال کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے سنیئر وکلاءکی بھی سرزنش کی ہے اور ضلع عدالتوں پر تالا چڑھانے اور سول معاملات کے تعلق سے مقدمہ لڑنے والوں کو عدالتوں میں داخل ہونے سے روکنے کی پاداش میں جموں بار ایسو سی ایشن کے احتجاجی وکلا¿ کے نام وجہ بتاﺅ نوٹس جاری کیاہے۔یہ نوٹس ایس بلدیو سنگھ ، نیتن بخشی ، اظہر عثمان خان اور مہندر سنگھ پالی کے نام مجرمانہ توہین عدالت کی پاداش میں جاری کیا گیا۔ وجہ بتاﺅ نوٹس جاری کرنے والے بنچ نے بتایا کہ ضلع عدالتوں پر تالا چڑھانا او روکلاءکو عدالت میں داخل ہونے سے روکنا ایک سنگین معاملہ ہے جس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔چیف جسٹس ، جسٹس گیتا متل اور جسٹس راجیش بندل کی سربراہی والے کورم نے عدالت عظمیٰ کی رولنگ ،کہ میٹنگ کے لئے کال ، ہڑتال پر جانے کا فیصلہ، عدالت سے غیر حاضر رہنے اور عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ ، عدالتوں پر تالا چڑھانا ، عدالت میں داخل ہونے والوں کی راہ رُکاوٹ پیدا کرنا کے مطابق وجہ بتاﺅ نوٹس جاری کیا ہے۔بنچ نے کہا کہ احتجاج کرنے والے وکلا¿ کا طرز ِ عمل قواعد وضوابط او رقانون کے برخلاف ہے اور یہ توہین عدالت کا صریحاً اظہار ہے۔چیف جسٹس ، جسٹس گیتا مِتل کی سربراہی والی بنچ نے کہا ” ہمیں اُمید ہے کہ اِس یاددہانی سے بار ایسو سی ایشن کے ممبران اصلیت کو سمجھ جائیں گے او روہ قانون کے مطابق کام کریں گے جس سے ملک کے آئین کے تحت عوام کو حاصل حقوق کا تحفظ یقینی بنے گا۔“ چیف جسٹس ، جسٹس گیتا متل اور جسٹس راجیش بندل پر مشتمل ڈویژن بنچ نے از خود نوٹس کے تحت ریٹ پٹیشن پی آئی ایل نمبر46/2019اورپی آئی ایل نمبر47/2019کے تحت تفصیلی احکامات صادر کئے ہیں۔ کورٹ نے مفاد عامہ عرضی نمبر46/2019میں کہاکہ ”یہ کورٹ کی ذمہ داری ہے کہ وہ مرکزی زیر انتظام جموں وکشمیر اور لداخ کی عوام کو موثر اور شفاف انصاف رسائی یقینی بنائے، اس کے لئے یہ لازمی ہے کہ فریقین مقدمہ، عوام، عدلیہ ، اس کا عملہ اور بار کے ممبران نظم وضبط اور سازگار ماحول قائم بنائے رکھیںلیکن بدقسمتی سے جموں وکشمیر ہائی کورٹ بار ایسو سی ایشن نے غیر معینہ ہڑتال کال دی“، جوکہ غیر قانونی ہے۔غیر معمولی فیصلہ میں بنچ نے نے کہاکہ 10دسمبر2019کو اس متعلقہ رجسٹرار جنرل کوپرنسپل ڈسٹرکٹ جموں اور دیگر ضلع کورٹ کے ججوں سے اطلاعات موصول ہوئی کہ وکلاءنہ صرف عدالتوں سے بائیکاٹ پر ہیں بلکہ مین انٹری گیٹ جہاں سے ہائی کورٹ اور ضلع کورٹ کمپلیکس تک رسائی ممکن ہے، کو مقفل کر کے فریقین مقدمہ ، دیگر کورٹ عملہ ، ملزمین وغیرہ کو اندر آنے سے روک رہے ہیںجس وجہ سے عدالتی کام کاج میں بہت زیادہ خلل پڑا۔ کورٹ نے کہاکہ پولیس نے وکلاءسے الجھنا ہی نہیں چاہا جس سے وہ صورتحال کو قابو میں نہ کرسکی۔ جموں وکشمیر کی ضلع عدالتوں میں این آئی اے، این ڈی پی ایس اور ٹاڈا/پوٹا کے تحت کئی حساس نوعیت کے فوجداری مقدمات کی ٹرائل جاری ہے جس میں سنگین نوعیت کے ملزمین بھی شامل ہیں۔ضلع کورٹ کمپلیکس کے داخلہ گیٹس کو مقفل دینے کی وجہ سے کئی اہم کیسوں کی ٹرائل نہ ہوسکی کیونکہ ملزمین اور گواہان کو بھی اند ر داخل نہ ہونے دیاگیا۔ رجسٹرار جنرل اور رجسٹرار جوڈیشل کو اس متعلق 14نومبر، 8،9،11اور13نومبر ،14،16اور پھر18نومبر کو ایسی ہی اطلاعات موصول ہوئیں کہ وکلاءنے جاری ہڑتال کو نیا رُخ دیتے ہوئے انٹری گیٹس کو مقفل کرنے کی حکمت عملی اپنائی جس کو عملی جامہ پہنانے کے لئے سردار بلدیو سنگھ، نتن بخشی، اظہر عثمان خان اور موہندر سنگھ پالی نامی وکلاءاپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ پیش پیش رہے۔ 23نومبر2019کو چیف جسٹس سیکریٹریٹ میں رام پال ولد شر شاردھا رام نامی شخص نے گیٹس مقفل کرنے بارے شکایت بھی درج کرائی۔ عدالت کا کہنا ہے کہ وکلاءہڑتال نہیں کرسکتے، اس حوالہ سے عدالت عظمیٰ کے متعدد فیصلوں کا بھی تفصیلی حوالہ آرڈر میں دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ سنیئر وکلاءکا بھی رول مایوس کن رہا ہے جوکہ قواعد وضوابط کے مطابق اِس طرح ہڑتال پر نہیں جاسکتے۔بنچ نے اپنے آرڈر میں کہا ہے کہ ہائی کورٹ جموں ونگ میں 46,189جبکہ ڈسٹرکٹ کورٹ جموں میں39,241مقدمات زیر سماعت ہیں، اس طرح وکلاءکا عدالتوں سے غیر حاضر رہنا، مقدمات کی طوالت کا موجب بن رہی ہے۔چیف جسٹس گیتا متل اور جسٹس راجیش بندل نےسردار بلدیو سنگھ، نتن بخشی، اظہر عثمان خان اور موہندر سنگھ پالی نامی وکلاءکو وجہ بتاو¿ نوٹس جاری کیا کہ ان کے خلاف فوجداری توہین عدالت کی کارروائی عمل میں کیوں نہ لائی جائے جس میں اُن سے دو ہفتوں کے اندر جواب طلب کیاگیاہے۔ احتجاج کرنے والے وکلا¿سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنی پوزیشن واضح کریں اور یہ بتائیں کہ جموں اینڈ کشمیر ایڈوکیٹس رولز 2003کے مد 10اور 11 کے تحت اُن کے خلاف کارروائی کیوں نہ کی جائے۔وکلا¿ کو نوٹس ملنے کے دو ہفتے کے اندر اندر اپنا جواب داخل کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔جموںوکشمیر ہائی کورٹ کے رجسٹرار جنرل اور رجسٹرار جوڈیشل جموں کو ہدایت دی گئی کہ وہ پرنسپل ڈسٹرکٹ اینڈ سشنز جموں سے اس سلسلے میں تازہ ترین جانکاری اور سی سی ٹی وی کوریج حاصل کریں۔رجسٹرار آئی ٹی کو بھی اِس سلسلے میں تحقیقات کرنے اور عدالت میں اپنی رِپورٹ پیش کرنے کے لئے کہا گیا ہے۔ اگلی سماعت 29جنوری 2020رکھی گئی ہے۔دریں اثناءپی آئی ایل نمبر47/2019میں بنچ نے عدالتوں میں معقول سیکورٹی فورسز کی تعیناتی عمل میں نہ لانے اور جموں وکشمیر پولیس کی جگہ سینٹرل پیرا ملٹری فورسز کی معقول تعیناتی عمل میں لانے کے لئے مرکزی وزارت داخلہ کو بھی نوٹس جاری کیا ہے۔۔ 31مئی 2007اور4جون2007کو مرکزی وزارت داخلہ امور نے گائیڈ لائز جاری کی تھی کہ ملک کے ہائی کورٹ، ڈسٹرکٹ اور ماتحت عدالتوں میں سیکورٹی فراہم کی جائے۔ یہ گائیڈلائنز چیف سیکریٹری، ڈائریکٹر جنرل آف پولیس اور انسپکٹر جنرل آف پولیس کو دی گئی تھیں لیکن یہ دیکھاگیا ہے کہ جموں وکشمیر میں اِن گائیڈ لائنز پر کوئی عملدرآمد نہیں ہورہا۔ ضلع کورٹ کے مین گیٹ کو مقفل کرنے کے خطرناک نتائج ہوسکتے ہیں جوکہ آئین ہند کی دفعہ21کے تحت قیدیوں اور ملزمین کو حاضر حقوق کی بھی خلاف ورزی ہے۔ اس سے نہ صرف ججوں کی سیکورٹی کو حدشہ ہے بلکہ ضلع کور ٹ کمپلیکس کے اندر دیگر افراد بھی کسی ناخوشگوار واقع کا شکار ہوسکتے ہیں۔ جموںوکشمیر ہائی کورٹ نے حکومت کے نام نوٹس جاری کرتے ہوئے عدالت عالیہ اور جموں وکشمیر کی تمام ضلع عدالتوں میں سینٹرل آرمڈ پولیس فورس( سی اے پی ایف) تعینا ت کرنے کے کہا ہے ۔ چیف جسٹس ، جسٹس گیتامتل اور جسٹس راجیش بندل کی سربراہی والی ہائی کورٹ کورم نے ہدایت دی ہے کہ مرکزی وزارت داخلہ کے تمام متعلقہ سرکیولروں اور سابق ریاست جموں وکشمیر کی حکومت کے سرکیولروں اور مرکزی انتظام والے جموں وکشمیر کے سرکیولروں ، جن میں ضلع عدالتوں اور عدالت عالیہ کو ہائی سیکورٹی زون قرار دینے کے لئے کہا گیا ہے کو عدالت کے سامنے پیش کیا جائے ۔مرکزی حکومت کو بھی نوٹس جاری کیا گیا ہے جس میں جموں وکشمیر ہائی کورٹ کی دونوں شاخوں اور ضلع عدالتوں کو سیکورٹی فراہم کرنے کے لئے کہا گیا ہے۔۔ذرائع کے مطابق جموں وکشمیر میں چونکہ امن وقانون کی صورتحال کا سامنا ہے، اس لئے یہاں کئی سنگین نوعیت کے جرائم میں ملزمین ملوث ہیں، اس کے لئے یہاں کی عدالتوں کو ہائی سیکورٹی کور میں رکھنے کے لئے مرکزی وزارت داخلہ ماضی میں کئی آرڈرز جاری کر چکی ہے۔ ذرائع کے مطابق آنے والے دنوں میں جموں وکشمیر ہائی کورٹ جموں ونگ اور ضلع کورٹ کمپلیکس سمیت دیگر عدالتوں میں جموں وکشمیر پولیس کی بجائے مکمل کنٹرول سینٹرل پیرا ملٹری فورسزکے ہاتھوں میں دیاجائےگا تاکہ اِس طرح وکلاءکی ہڑتالوں پر روک لگائی جاسکے اور انہیں رکاوٹیں حائل کرنے کی قطعی گنجائش نہ ہو۔