جموں وکشمیر سے پہاڑی لیڈران کا وفد وزیر داخلہ امت شاہ سے ملاقی
قبیلہ کو ایس ٹی درجہ دینے کا مطالبہ دوہرایا
الطاف حسین جنجوعہ
جموں//مرکزی زیر انتظام جموں وکشمیرسے پہاڑی قبیلہ کے ایک اعلیٰ سطحی وفدنے نئی دہلی میں مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ اور نیشنل سیکورٹی ایڈوائزراجیت ڈبھال سے ملاقات کی۔جموں وکشمیر پہاڑی کلچرل اینڈ ویلفیئر فورم کے بینر تلے ملاقی 11رکنی وفد کی قیادت سابقہ بزرگ پہاڑی رہنمارکن پارلیمان واسمبلی اسپیکر مرزا عبدالرشید کر رہے تھے۔باوثوق ذرائع نے اُڑان کو بتایاکہ وزیر داخلہ امت شاہ کو جموں وکشمیر کے پہاڑی قبیلہ کے دیرینہ ایس ٹی مطالبہ کے بارے میں تفصیلی طور بتایا۔ وفد نے کہاکہ سماجی اور تعلیمی طور پسماندہ پہاڑی قبیلہ کے لوگ دہائیوں سے نا انصافی کا شکار رہے ہیں۔ سال 1989کو جموں وکشمیر کی حکومت نے پہاڑی سمیت متعدد طبقہ جات کو آئین ِ ہند کے تحت درج فہرست قبائل کا درجہ دینے کی سفارش کی ۔حکومتِ ہند نے مذخورہ سفارش کو تسلیم کرتے ہوئے دیگر طبقہ جات کے حق میں سیاسی فیصلہ کیا مگر پہاڑیوں کو نظر انداز کر دیاگیا، تب سے جموں وکشمیر کی ہر حکومت نے بارہا مرکز کی نوٹس میں یہ مطالبہ لایا مگر اس کے مثبت نتائج برآمد نہ ہوسکے۔ اس اثناءمرکزی سرکارکی ہدایت پر جموں وکشمیر کی وزارت برائے سماجی بہبود نے پہاڑی قبیلہ کا ’سوشل اکنامک سروے‘بھی کرایا جس کی رپورٹ ریاستی کابینہ کی منظوری کے بعد مرکز کو بھیجی گئی اور اِس وقت یہ معاملہ وزارت برائے قبائلی امور میں زیر التوا پڑا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ ملک کے متعدد وزرائے اعظم بشمول آئی کے گجرال، ایچ ڈی دیو گوڑا ، اٹل بہاری واجپائی اور سردار منموہن سنگھ نے پہاڑی قبیلہ کے اِس دیرینہ مطالبہ کے حق میں عوامی سطح پر وعدے بھی کئے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی لال قلعہ کی فصیل سے رواں برس پہاڑی قبیلہ کے اِس مطالبہ کو جائز قرار دیاتھا۔وفد نے وزیر داخلہ کو بتایاکہ جنرل کے وی کرشنا راو¿ نے 26دسمبر1993کو پہاڑی طبقہ کے حق میں سفارش کرتے ہوئے تھاکہ محب وطن پہاڑیوں کو آج تک کھوکھلے نعرو¿ں پر زندہ رکھاگیاہے۔ وفد نے وزیر موصوف کو یہ بھی بتایاکہ جموں وکشمیر میں بی جے پی مخلوط حکومت نے گذشتہ برس مقامی سروسز میں پہاڑی طبقہ کو تین فیصد ریزرویشن دینے کے لئے قانون منظور کیاتھا لیکن اِس پر بھی آج تک عمل آوری نہ ہوسکی ہے۔ وفد نے اُمید ظاہر کی کہ موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی قیادت والی بی جے پی حکومت اِس دیرینہ مطالبہ کو پورا کر کے لاکھوں پہاڑیوں کو انصاف فراہم کریگی۔وفد نے ایس ٹی مطالبہ سے متعلق تفصیلی تحریری یادداشت بھی وزیر داخلہ کو پیش کی جنہوں نے یقین دلایاکہ طبقہ سے انصاف ہوگا۔ وفد میں پہاڑی مشاورتی بورڈ کے سابقہ وائس چیئرمین سید مشتاق حسین شاہ بخاری، قانون ساز کونسل کے سابقہ ڈپٹی چیئرمین جہانگیر حسین میر، سابقہ ایم ایل سی مرتضیٰ خان،سابقہ ایم ایل سی وبودھ گپتا، سید اقبال حسین شاہ کاظمی، امجدمرزا، شفیق میر، اقبال ملک، پونچھ سے بی جے پی ضلع صدر محمد رفیق چشتی وغیرہ شامل تھے۔ قابلِ ذکر ہے کہ یاستی کابینہ نے سال 1989کو کابینہ فیصلہ نمبر159کے تحت مرکزی سرکار سے پہاڑی قبیلہ سمیت 7قبائل کو ایس ٹی کادرجہ دینے کی سفارش کی ۔ 1991میں جب مرکز نے ریاست جموں وکشمیر کے 7قبائل بشمول گوجر بکروالوں کو ایس ٹی کا درجہ دیاتو پہاڑی قبیلہ کو نظر انداز کیاگیا جوکہ سفارش میں پہلے نمبر پر تھے۔14اکتوبر 1991کو اس وقت کے جموں وکشمیر کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے مرکزی سرکاری سے پہاڑیوں کے ایس ٹی مطالبہ کو پورا کرنے کی سفارش کی۔ 26دسمبر1993کو جموں وکشمیر کے گورنر کے وی کرشنہ راو¿ نے سرکاری طور مرکزی وزیر برائے سماجی بہبود سیتا رام کیسری کو مکتوب لکھا جس میں پہاڑی طبقہ کو ایس ٹی زمرہ میں شامل کرنے کی پرزور سفارش کی۔ نہ صرف ریاستی سطح بلکہ ملکی سطح کے حکمرانوں نے بھی پہاڑی طبقہ کو جائز حق دلانے کا وعدہ کیا ۔ سال 2005کو آئے بھیانک زلزلہ کے وقت جب ،اُس وقت کے صدر جمہوریہ ہند ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام، وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ اور اس وقت کانگریس قیادت والی یوپی اے حکومت کی چیئرپرسن سونیا گاندھی نے اوڑی میں دورہ کیاتوزلزلہ متاثرین پہاڑیوں نے مالی امداد لینے سے انکار کرتے ہوئے مانگ کی کہ انہیں ایس ٹی کا درجہ دیاجائے۔ اس دوران مذکورہ تینوں شخصیات نے طبقہ سے وعدہ کیاتھا۔ سابقہ وزیر اعظم ہند اٹل بہاری واجپئی کے دورہ کرناہ کے دوران بھی لوگوں نے یہی مطالبہ دوہرایا جس پر واجپئی نے یقین دلایاکہ ان کے مطالبہ کو پورا کیاجائے گا۔اس ضمن میں واجپئی نے مرکزی وزارت سماجی بہبود کو مکتوب بھی لکھا۔29مئی 2001کو ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے بطور وزیر اعلیٰ دوبارہ سے مرکزی حکومت سے اس کی سفارش کی۔ سال 2004اور2005میں جموں وکشمیر کے وزیر اعلیٰ مفتی محمد سعید کی قیاد ت والی ریاستی کابینہ نے مرکز سے ایکبار پھر اس مطالبہ کی سفارش کی۔جموں وکشمیر اسمبلی میںمتفقہ طور قرار داد بھی پاس کی گئی جس میں مرکزی حکومت سے پرزور اپریل کی گئی کہ پہاڑیوں کو ایس ٹی کا درجہ دیاجائے۔جسٹس صغیر کمیٹی رپورٹ میں پہاڑی قبیلہ کو ایس ٹی دینے کی بات شامل تھی۔ مرکزی سرکار کی طرف سے مقرر کردہ تین مذاکراتکاروں نے بھی اس مطالبہ کی سفارش کی ۔سال2002میں ڈاکٹرسوشیل کمار اندورہ کی سربراہی والی لیبر اور ویلفیئر پر اسٹینڈنگ کمیٹی نے بھی حکومت سے اس کی سفارش کی اور کہاکہ جموں وکشمیر میں حدمتارکہ کے نزدیک رہنے والے پہاڑی طبقہ کا طرز زندگی گوجربکروالوں جیسا ہے اور انہیں بھی ایس ٹی درجہ دیاجانا چاہئے۔ایس کے پار سرینگر میں پہاڑی طبقہ کی طرف سے ایک للکار ریلی بھی نکالی گئی جس میں پونچھ راجوری، اوڑی، کرنا ہ سے ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔ سال 2007میں جموں وکشمیر ہائی کورٹ نے بھی حکومت سے کہاتھاکہ طبقہ کے اس دیرینہ مطالبہ کو پورا کیاجائے۔ اکتوبر 2014میں جموں وکشمیر میں این سی۔ کانگریس مخلوط حکومت نے پہاڑیوں کو ایس ٹی کا درجہ ملنے تک پانچ فیصد ریزرویشن دینے کا بل پاس کیاجس کو گورنر کے پاس منظوری کے لئے بھیجا گیا جنہوں نے اِس پر کچھ اعتراضات ظاہر کئے، جنہیں دور کیاگیا۔ریاستی بیکورڈ کلاس کمیشن نے طبقہ کو3فیصد ریزرویشن دینے کی سفارش کی جس کو بنیاد بناکر موجودہ حکومت نے اسمبلی میں بل پاس کیا۔ سب سے پہلے 1989ءمیں کابینہ آرڈر زیر نمبر 159کے تحت اس وقت کے ریاستی وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے دیگر طبقوں کے ساتھ پہاڑی عوام کو بھی ایس ٹی درجہ دیئے جانے کی مرکز سے پہلی بار سفارش کی ،جس کے بعد ہر گورنر نے اورپھر مفتی محمد سعید ، غلام نبی آزاد اور وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ اور اب محبوبہ مفتی نے بھی مرکز کو تازہ سفارش بھیجی ہے۔ اس کے علاوہ کئی وفود جن میں کل جماعتی وفد اور مذاکرات کاروں کی ٹیم قابل ذکر ہیں،کے ساتھ جسٹس صغیر نے بھی پہاڑی عوام کو ایس ٹی دینے کی مرکز کو سفارش کی۔ مرکزی وزارت داخلہ نے پہاڑی طبقہ کی اقتصادی وسماجی صورتحال جاننے کے لئے Socio-Economic Surveyکروایا جس نے بھی طبقہ کے حق میں اپنی مفصل رپورٹ پیش کی، جس رپورٹ کو موجودہ پی ڈی پی۔ بی جے پی مخلوط حکومت نے ریاستی کابینہ میں منظوری دیکر اپنی سفارش کے ساتھ مرکزی حکومت کو بھیجا جہاں STمطالبہ ہنوز زیر التوا ہے۔