کیا یکم نومبر کے بعد بھی جموں وکشمیر بار کونسل کے انتخابات ہوں گے….؟
الطاف حسین جنجوعہ
جموں//جموں وکشمیر تنظیم نوقانون کے تحت حکومتی وانتظامی سطح پر 31اکتوبر2019سے جہاں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں رونما ہونے والی ہیں۔ اس حوالے سے بہت ساری چیزیں واضح ہوچکی ہیںمگر اس سب کے باوجود وکلاءبرادری کے ذہنوں میں یہ سوال گردش کر رہا ہے کہ آیا اِس بڑی تبدیلی کے بعد ان سے بھی انصاف ہوگا اور جموں وکشمیر میں بار کونسل کے انتخابات ہوں گے۔اگر چہ جموں وکشمیر تنظیم نو سے قبل بھی ریاست میں بار کونسل کے الیکشن ہوسکتے تھے لیکن اس میں نامعلوم وجوہات کی بنا پر غیر ضروری تاخیر کی گئی۔ سال 2017میں عدالت عظمیٰ نے پروفیسر بھیم سنگھ کی طرف سے دائر ایک عرضی پر حتمی فیصلہ سناتے ہوئے جموں وکشمیر ہائی کورٹ کو حکم دیاتھاکہ بار کونسل کے الیکشن کرائے جائیں مگر ہنوز ایسا نہ ہوسکا۔ذرائع کے مطابق اُس وقت کے چیف جسٹس تیرتھ سنگھ ٹھاکر کی سربراہی والی سپریم کورٹ کی ڈویژن بنچ نے جموں وکشمیر ہائی کورٹ کو ہدایت دی تھی کہ جموں وکشمیر بار کونسل کے الیکشن کرائی جائیں۔ اس کے لئے 12اکتوبر2017کو فیصلہ آیاتھا۔ مئی 2017میں جسٹس آلوک ارادے اور جسٹس جنک راج کوتوال نے جموں وکشمیر اسٹیٹ بار کونسل رولز سرکاری گزیٹیڈ میں شائع کرنے کی ہدایات دی تھی ۔ چار ماہ کے اندر رولز بنانے تھے۔ مئی 2017میں جسٹس آلوک ارادے اور جسٹس جنک راج کوتوال نے جموں وکشمیر اسٹیٹ بار کونسل رولز سرکاری گزیٹیڈ میں شائع کرنے کی ہدایات دی تھی ۔ چار ماہ کے اندر رولز بنانے تھے۔ سال 1961میں وکلاءکی فلاح وبہبودی اور پیشہ وکالت کے قواعد ضوابط متعلق ایڈووکیٹ پاس ہوا تھا سپریم کورٹ آف انڈیا کی مداخلت کے بعد 15جولائی 1986کو ترمیم کے ساتھ جموں وکشمیر میں سیکشن 30کو چھوڑ کرتحت نافذ کیاگیا ۔دفعہ30کے تحت جموں وکشمیر میں بطور وکیل رجسٹرڈ پر بیرون ریاست وکالات پر پابندی تھی۔ ایڈووکیٹ ایکٹ 1961کے مطابق ملک کی ہر ریاست میں الیکٹورل کالج(وکلائ)کی منتخب اکائی بار کونسل ہونی چاہئے۔ پروفیسر بھیم سنگھ جوکہ لگاتار اس کے لئے جدوجہد لڑتے رہے ہیں ، نے حالیہ دنوں چیئرمین بار کونسل آف انڈیا، صدر جمہوریہ ہند کے نام ایک مکتوب میں گذارش کی کہ 48سالوں سے امتیاز کا شکار جموں وکشمیر کی وکلاءبرادری کو بھی بار کونسل کا قیام عمل میں لاکر انصاف فراہم کیاجائے۔ اس حوالہ سے بھیم سنگھ نے بات کرتے ہوئے کہا” میں نے اس کے لئے طویل لڑائی لڑی ہے، 1972میں نے بار کونسل آف دہلی میں اندراج کرایا کیونکہ جموں وکشمیر میں ایڈووکیٹ ایکٹ نافذ نہیں تھا، اس کے علاوہ بہت سارے جموں وکشمیر سے تعلق رکھنے والے وکلاءجوبار کونسل نئی دہلی کے ممبر ہیں وہ الیکشن لڑ بھی سکتے ہیں اور ووٹ بھی ڈال سکتے ہیں“۔خیال رہے کہ ایڈووکیٹ ایکٹ1961کے تحت 31جنوری 1974سے بار کونسل کے اختیارات کا استعمال اِس وقت جموں وکشمیر ہائی کورٹ کے جج کر رہے ہیں، جس وجہ سے وکلاءبرادری کو سخت ترین مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہاہے۔وکلاءکو لائسنس کی اجرائیگی، شناختی کارڈز، ویلفیئر فنڈز ، وکلا ءکی رکنیت منسوخی، انضباطی کارروائی وغیرہ کے سبھی اختیارات ججوں کے پاس ہیں۔وکلاءکو ’ایڈووکیٹ ویلفیئر فنڈ‘سے امداد لینے کے لئے کئی ماہ تک انتظا ر کرنا پڑتاہے۔ لائسنس ملنے بھی سالہا سال لگ جاتے ہیں۔ نئے انرول وکلاءکی حلف برادری کا بھی کوئی شیڈیول نہیں۔اگر یہاں پر منتخب بار کونسل ہوتی جس میں وکلاءکے چنے ہوئے عہدیداران ہوتے تو بروقت ویلفیئر فنڈز سے وکلاءکو ضرورت پڑنے پر امداد ملتی اور دیگر مسائل کا بھی تیزی سے نپٹارا ہوتا۔ہائی کورٹ جموں کے وکلاءکا کہنا ہے کہ الیکشن کا انعقاد کرانا ہائی کورٹ کے حد ِ اختیار میں ہے، یہ کام پہلے بھی ہوسکتا تھا لیکن جان بوجھ کر ایسا نہیں کیاجارہاتاکہ وکلاءاپنے اختیارات کا استعمال نہ کرسکیں۔وکلاءکو امید ہے کہ یکم نومبر کے بعد جب جموں وکشمیر اور لداخ دو مرکزی زیر انتظام علاقے بن جائیں گے، میں بار کونسل کے الیکشن جلد منعقد ہوں۔ تنظیم نو قانون 2019کی سیکشن76کی ذیلی شق(g)میں جموں وکشمیر اور لداخ مرکزی زیر انتظام علاقوں کے لئے ایک بار کونسل کے قیام کا ذکر ہے، اب ہائی کورٹ کو رولز وغیرہ بنانے کی بھی ضرورت نہیں کیونکہ یہاں اب مرکز کے رولز کا نفاذ ہی ہوگا۔