شہباز رشید بہورو
مشرقی وسطی کا جنگی میدان ،افغانستان کا بدلتا منظر،بھارت پاک کشیدگی،یہود کی گریٹر اسرائیل بنانے کی تیاری اور عالمی طاقتوں کی ہٹ دھرمی اور منافقت اس کرہ ارض کو لا محالہ ایک بھیانک جنگ کی طرف دھکیل رہی ہے۔تعصب کی بھٹی گرم ،نفرت کا زہر اچھلتا ہوا ،تکبر کا سینگ ابھرتا ہوا اور عالم ِ انسانیت کی مجموعی بے حسی میدانِ جنگ کی زیبائش و آرائش کا سامان بننے جا رہی ہے ۔کیو نکہ جنگ سے پہلے یہی کچھ گردش میں ہوتا ہے جس کا اندازہ جنگوں کی تاریخ کے ہر باب سے بآسانی ہو سکتا ہے۔جہاں تک دور جدید کی جنگوں کا تعلق ہے یہ جنگیں قدیم زمانے کی جنگوں کے مقابلے میں اپنی شدت اور رفتار میں اتنی ہی مختلف ہیں جتنا کہ قدیم اور جدید آمد ورفت کے ذرائع ہیں۔
اس پیش آنے والی جنگ میں ہر طاقت زعمِ باطل سے مغلوب ہو کر میدانِ جنگ کو اپنے نام کرنے کی خواہشمند ہونے کے ساتھ ساتھ صد فی صد تیقن کے ساتھ تخیلاتی قصر کے بالاخانہ سے جنگ کا نظارہ کرنے کی تیاری میں ہیں ۔ہر ملک اپنی وقتی خوشحالی کو جنگ کی بھنیٹ چڑھانے کے لئے چلت پھرت کر رہا ہے اور جو ملک اپنی اقتصادی خستہ حالی کی وجہ سے ایک داخلی بحران کا شکار ہو رہا ہے وہ بھی اپنی اس پریشانی کا حل جنگ میں تلاش کر رہا ہے۔مجھے حیرت ہوتی ہے کہ جنگ کو اپنے جملہ مسائل کا حل تجویز کرنے والے اپنے آپ کو مبصر،تجزیہ نگار اور نہ جانے کیا کیا منوانے کے لئے اپنی احمقانہ باتوں کو اپنے اپنے ملک کی میڈیا کے ذریعے نشر کروا کے اپنی ملک کی عوام کو کیوں دھوکہ دینا چاہتے ہیں ؟ہٹلر نے بھی جرمنی کی عوام کو بڑے خوا ب دکھائے تھے لیکن پھر جرمنی کو آگ میں جھلسا کر خود کو بھی اسی آگ کا لقمہ بنوایا ۔چند لوگ اپنے مفاد کے لئے کروڑوں لوگوں کو بھینٹ چھڑواتے ہیں۔ےہ انسان نما وحشی اپنے گوشت کے لوتھڑے کی تسکین کے لئے ہزار ہا جانوں کا گوشت بھنوا دیتے ہیں ۔انہی لوگوں کی حماقت عالمی جنگوں کے چھڑنے کا باعث ہوا کرتی ہیں ۔
جنگ کے متعلق خوش گمان رہنا قطعی طور پر پاگل پن ہے کیونکہ ایک بات تاریخی طور پر ثابت ہے کہ جنگیں اکثر غیر متوقع نتائج پیش کرتی ہےں جنگ کا آغاز اور اختتام بالکل مختلف مناظر پیش کرتی ہے۔ماضی قریب میں انگلینڈ،جرمنی،اٹلی ،جاپان اور روس جیسی سپر پاورز جنگ کے دلدل میں پھسل کر اپنا سارا محنت سے حاصل کیا ہوا وقار آناً فاناًجنگ کی نذر کرکے نقصان سے دوچار ہوئیں۔اسی طرح سے آمریکہ طالبان کے ساتھ جنگ میں الجھ کراندرونی طور شکست سے دوچار ہو چکا ہے اور اب مستقبل میں افغانستان سے فوجی انخلائ کرکے اپنی ہار کا اعلان کرنے کے قریب پہہنچ چکا ہے۔آمریکہ کا افغانستان میں مزید رہنا اس کے لئے معاشی بحران کا باعث ہو گا جس کے نتیجے میں آمریکہ کو اپنی معیشت قائم رکھنے کے لئے دنیا کی چھوٹی موٹی طاقتوں کو آپس میں لڑانا ازحد ضروری ہو گا ۔کیونکہ آمریکہ کو ہتھیار فرخت کرنے کی ایک بڑی منڈی اس طرح حاصل ہو گی ۔یہ منڈی خیرآ مریکہ کو اب بھی حاصل ہے لیکن مستقبل میں اس منڈی کو اور زیادہ مضبوط بنانے کا آمریکہ کا ارادہ ہے کیونکہ آمریکہ کی منافقت نے اسے ایک خطرناک گرداب میں پھنسا لیا ہے جس سے اگر یہ نکلتا ہے تو اپنا طاقتور ہونے کا اعزاز کھونے کا خطرہ مول لے گا اور اگر آمریکہ اسی میں پھنسا رہتا ہے تو داخلی طور پر آمریکہ اتنا کمزور ہو جائے گا جتنا ایک بوڑھا شیر اپنے بھڑاپے میں اندر کی کمزوری کی وجہ سے بے بس و مجبور ہوتا ہے۔ موجودہ جنگی منظر نامہ میں آمریکہ ایک کلیدی رول ادا کر رہا ہے۔میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ یہ آمریکہ ہی ہے جو دنیا میں اسرائیل کی ترجمانی کرتے ہوئے جنگ کی بھٹی کو گرم رکھے ہوئے ہے۔پچھلے ساٹھ ستر سالوں میں جتنی بھی جنگیں ہوئیں ان میں آمریکہ کسی نہ کسی طرح سے اہم کردار ادا کرتے ہوئے نظر آتا ہے ۔اس جنگی کردار کی ادائیگی میں امریکہ خود تنہا نہیں ہے بلکہ اس کے حوارئین بھی اس کے برابر ساتھ ہیں ۔یہ منظرنامہ شاید طاقتوں کے توازن کی بگاڑنے کی تمہید ہے ،طاقتوں کی تبدیلی کے سلسلے کی آخری کڑی ہے اور پکا ہوا آتش فشاں کبھی بھی پھٹ پڑ سکتا ہے ۔اسی پر مستزاد یہ کہ موجودہ جنگی منظر نامہ دنیا کا ایک نیا نقشہ بنانے کی بگل بھی بجا چکا ہے ۔لیکن Redrawing of global map کے اس Episodeمیں کروڑوں معصوم جانوں کا لہو زمین کی قحط سالی کو ختم کرنے کا ٹھوس امکان ہے۔
قرآن کے خصیم مبین کی ترجمانی کرتی ہوئی یہ طاقتیں مفروضوں کے ماحول میں راحت کی سانس لے کر عیاشی اور بدمعاشی کا ماحول گرم کئے ہوئی ہیں ۔طاقت کے نشے سے چور ہو کر ملکوتی سخنِ استہزائ کا
بننے والی یہ طاقتیں سرزمینِ اشرف المخلوقات کو شاید شرفِ انسانیت سے محروم کرنے کی ایک بڑی تحریک کا آغاز کرچکی ہیں ۔اسی تحریکِ فساد میں خود شناسی کے بدلے خود فراموشی اور خدا شناسی کے بدلے خدافراموشی کی تعلیم و تربیت کا بڑے پیمانے پر خبیث انتظام کیا گیا ہے۔خیر کے داخل ہونے کی ہر راہ پر بند لگانے کی ابلیسی کوشش کی جاچکی ہے ۔اس دنیا کو دارالامان کے بدلے دارالفساد بنانے کا ارادہ کیا جا چکا ہے۔تنازعات کی جو کمزور دراڑیں مختلف ممالک کے مابین تھیں وہ اب مستقل ایک جنگ کا باعث بن چکی ہیں ۔دراصل اب آج کی اکثریت اپنے معاملات عدل و انصاف کے حدود کے اندر گفت و شنید سے حل کرنے کی اہل اس لئے نہیں رہ چکی ہے کیونکہ جہالت نے مختلف روپ دھار کر کر کے انہیں اپنا گرویدہ کر لیا ہے۔جس ملک میں بھی دیکھیں ظلم کا دور دورہ ہے ،انسانی حقوق کی پامالی ہے اور فسطائیت و مطلق العنانی کا عروج ہے ۔
دور جدید میںجنگیں بھی مختلف محاذ پر لڑی جا رہی ہیں ۔ایک محاذ تو وہ ہے جو ابھی مشرقی وسطی اور افغانستان میں نظر آرہا ہے ،دوسرا وہ ہے جو ابھی Economic sanctions کی صورت میں کھڑ کیاگیا ہے اور تیسرا سازشوں و فریب کا محاذ ہے جہاں عالمی طاقتوں کی خفیہ تنظیمیں اپنے اپنے دشمن ممالک کے خلاف برسرِپیکار ہیں۔ان تینوں محاذ پر لڑائیاں بڑی شدت کے ساتھ جاری ہیں ۔