کونسل عملہ کو عمومی انتظامی محکمہ میں رپورٹ کرنے کی ہدایت
ریاستی ایوان ِ بالا تحلیل
عمارت معہ سازوسامان اسٹیٹ اور گاڑیاں موٹرگیراج محکمہ جات کی تحویل میں
الطاف حسین جنجوعہ
جموں//ریاستی حکومت نے جموں وکشمیر قانون ساز کونسل جس سے ایوانِ بالابھی کہاجاتاہے کو منسوخ کر دیا ہے۔ جموں وکشمیر تنظیم نوقانون2019کی سیکشن 57کے تحت اس کی منسوخی کیلئے باقاعدہ حکم نامہ جاری کیا گیا۔ عمومی انتظامی محکمہ کی طرف سے جاری جاری آرڈر نمبر1109-GAD/2019میں قانون ساز کونسل کے تمام عملہ کو کیاگیاہے کہ وہ 22اکتوبر2019تک جنرل ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ کے پاس رپورٹ کرے۔ وقتاًفوقتاً چیئرمین، ڈپٹی چیئرمین یا دیگر افسران کے لئے قانون ساز کونسل کی طرف سے خریدی گئی گاڑیوں ڈائریکٹر اسٹیٹ موٹر گیراج کو منتقل ہوں گیں ۔ قانون ساز کونسل کے سیکریٹری سے کہاگیا ہے کہ وہ کونسل کی عمارت معہ فرنیچر اور دیگر الیکٹرانک سازوسامان ڈائریکٹر اسٹیٹ کی تحویل میں دے ۔کونسل سیکریٹریٹ سے متعلق تمام ریکارڈ بشمول قانون ساز کونسل کارروائی کو محکمہ قانون، انصاف اور پارلیمانی امور کو منتقل کیاجائے۔ حکام کے مطابق کونسل کے ملازمین جس میں گزیٹیڈ، نان گزیٹیڈ، درجہ چہارم ، اردلی اور صفائی کرمچاری شامل ہیں، کی کل تعداد116ہے جنہیں جنرل ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ میں روپرٹ کرنے کو کہاگیا ہے جہاں سے آگے انہیں متعدد محکمہ جات میں ضم کیاجائے گا۔ اس حکم نامہ کے ساتھ ہی مختلف سیاسی جماعتوں سے وابستہ 22ممبران قانون ساز کونسل سے گاڑیاں اور سیکورٹی واپس لے جائیگی۔ ان میں سب سے زیادہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے 10ممبران شامل تھے۔ پی ڈی پی سے وابستہ ممبران کی تعداد 8، جبکہ جموں وکشمیر نیشنل کانفرنس کے3اور کانگریس کا ایک ایم ایل سی تھا۔ مارچ 2019کو آٹھ ممبران جن میں تین پی ڈی پی، تین کانگریس جبکہ بھاجپا اور نیشنل کانفرنس سے ایک ایک ممبرسبکدوش ہونے کے بعد یہ تعداد30سے گھٹ کر 22ہوگئی تھی۔16 مارچ 2019کو جن ممبران کی مدت مکمل ہوئی تھی ان میں پی ڈی پی کے نعیم اختر، یشپال شرما اور فردوس ٹاک، کانگریس کے رانی گارگی بلوریہ، نریش گپتا اور محمد مظفر پرے، بی جے پی کے صوفی یوسف اور نیشنل کانفرنس کے شوکت احمد گنائی شامل تھے۔ اِس وقت جو ایم ایل سی تھے ان میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے وبودھ گپتا، وکرم رندھاوا، پردیپ شرما، گردھاری لال رینہ،سریندر موہن امبردار، اجات شاترو سنگھ،رومیش اروڑہ اور اشوک کھجوریہ ، چھیرنگ دورجے، چرنجیت سنگھ خالصہ شامل تھے۔ پی ڈی پی ممبران میں حاجی عنایت علی،محبوبہ مفتی کے بھائی تصدق حسین مفتی، یاسر ریشی،جاوید احمد مرچال،سریندر سنگھ چوہدری،ظفراقبال منہاس،محمد خرشید عالم اور سیف الدین بھٹ تھے۔ نیشنل کانفرنس ممبران میں آغا سعید محمود الموسوی، سجاد کچلو اورقیصر جمشید لوک شامل تھے جبکہ کانگریس کے واحد ممبرکانگریس کے بلبیرسنگھ تھے۔خیال رہے کہ جموں وکشمیر کے آئین کی دفعہ46کے تحت 26جنوری 1957کومعروض وجود میں آئی جموں وکشمیر قانون ساز کونسل میں آئین کی سیکشن 50کے تحت کل ممبران کی تعداد36تھی، جس میں 11صوبہ کشمیرسے منتخب کئے جاتے تھے جس میں کم سے کم ایک کا تعلق تحصیل لداخ اور ایک کا تعلق تحصیل کرگل سے ہوتا تھا۔ اسی طرح11ممبران صوبہ جموں سے ایم ایل اے کے ووٹوں سے منتخب کئے جاتے تھے جس میں کم سے کم ایک ممبر کا تعلق ضلع ڈوڈہ اور ایک کا تعلق پونچھ ضلع سے لازمی تھا۔ جموں اور کشمیر صوبوں سے میونسپل کارپوریشن ، کونسل، ٹاو¿ن ایریا کمیٹیوں سے دو ممبران جبکہ چار ممبران (دو جموں اور دوکشمیر)سے پنچایتی کوٹہ سے منتخب کئے جاتے تھے۔ آٹھ ممبران کو گورنر جوکہ سماجی، تعلیمی، پسماندہ طبقہ جات سے تعلق رکھنے والں اور ادب، سائنس ، فن ، کوآپریٹو موو¿منٹ اور سماجی خدمات میں رول سے چنے جاتے تھے۔ 5اگست 2019سے قبل کونسل کی چھ نشستوں (چار پنچایتی کوٹہ) اور دو (میونسپل کارپوریشن وکمیٹیوں)سے پُر کئے جانی تھیں جس کے لئے کئی لوگ آس لگائے بیٹھے تھے لیکن اب قانون ساز کونسل قصہ پارینہ ہوگئی ہے۔