سال 1971کی جنگ کے بعد مسئلہ کشمیر اور رائے شماری !
اُڑان خصوصی
جموں//سال1971ءمیں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ہوئی جنگ کے بعد مغربی پاکستان ’بنگلہ دیش‘کی صورت میں ایک خود مختار ملک کے طور اُبھر کر سامنے آیا۔اِس جنگ کا اثر ’جموں وکشمیر ‘پر بھی واضح طور دیکھاگیا۔ سال 1953سے جاری ’محاز رائے شماری‘کے موقف کو ترک کے نیشنل کانفرنس’اندرا شیخ ایکارڈ‘کے تحت دوبارہ اقتدار سنبھالا۔رائے شماری تحریک کا موقف ترک کیوں ہو اور 1971کے بعد کشمیر کے حوالہ سے دونوں ممالک کا رویہ رہا۔ اس حوالہ سے تاریخ کی کئی کتابوں میں تفصیل درج ہے۔مورخ صوفی محی الدین’کشمیر 1931سے1977تک‘رقم طراز ہیں کہ جب پاکستان نے ہندوستان سے شکست کھائی اور مشرقی پرکستان ایک خود مختار ملک کے طور پر ابھرا تو برصغیر کی سیاست کا نقشہ ہی بدل گیا۔ اب تک پاکستان چھوٹا ملک ہونے کے باوجود فوجی لحاظ سے ہندوستان کے ہم پلہ مانا جاتاتھا۔ 1971کی جنگ کے بعد یہ ساری پوزیشن بدل گئی۔ پاکستان فوجی لحاظ سے ایک کمزور ملک تسلیم کیاجانے لگا۔ اپنی فوجی طاقت کا مظاہر کر کے بین الاقوامی سطح پر ہند کی سیاسی پوزیشن مضبوط ہوگئی۔نئے حالات میں رائے شماری کا مطالبہ ایک بے جان مطالبہ بن کر رہ گیا۔ نئی سیاسی تبدیلیوں کے بعد کشمیر کے مسئلے پر حالات کے نئے پس منظر میں غور کرنے ضرورت تھی۔ رائے شماری کے مطالبے کو منوانے کے لئے کشمیر کے اندر ایک زبردست جدوجہد کی ضرورت تھی۔کشمیری عوام اس قسم کی صورتحال میں جدوجہد کرنے کے لئے تیار نہیں تھے۔ وہ اب اپنے مفادات کو چھوڑ کر نہ گولیوں کے آگے سینہ سپر ہوسکتے تھے اور نہ ہی کسی سرگرم جدوجہد میں شامل ہوسکتے تھے۔ اس قسم کی صورتحال میں کوئی ایجی ٹیشن شروع کرنا دانشمندی نہ تھی۔ اگر کوئی ایسی ایجی ٹیشن شروع بھی کی جاتی تو کیا ہوتا۔ زیادہ سے زیادہ ہڑتال ہوجاتی، م ظاہرے ہوتے، چند گولیاں چلتیں، اس کے بعد وہی خاموشی مسلط ہوجاتی جو1953کے خونین واقعہ کے بعد پیدا ہوئی تھی۔ ان حالات میں تصادم کی راہ ترک کر کے مصالحت کی راہ اختیار کرنا بہترین حکمت عملی تھی، پاکستان نے بھی اب کشمیر کے بارے میں اپنا رویہ بدل دیا تھا۔ شملہ میں ہندوستان اور پاکستان کے لیڈروں میں جومعاہدہ ہوا۔ اس میں دونوں ممالک نے طاقت کے استعمال کو ترک کر کے کشمیر سمیت دوسرے مسائل حل کرنا تسلیم کیاتھا۔ شملہ معاہدہ میں پاکستان اور ہندوستان نے کشمیر کا مسئلہ حتمی طور دوطرفہ بات چیت کے ذریعہ حل کرنا مان لیا۔ اس معاہدہ کے تحت کشمیر میں جنگ کے دوران چھیننے گئے علاقوں کی ادلہ بدلی جس طریقہ پر شروع کی گئی، اس سے ثابت ہوگیا کہ فریقین نے ذہنی طور پر کشمیر میں ایک نئی پوزیشن تسلیم کی ہے۔ چھمب کا وسیع علاقہ جو جنگ میں پاکستان نے اپنے قبضہ میں لے لیاتھا سے ہندوستان دستبردار ہوگیا اور یہ علاقہ پاکستان کے پاس رہنے دیاگیا۔ پاکستان نے لیپا وادی کا علاقہ ہندوستان کو واپس دے دیا۔ اسی طرح دوسرے چھوٹے چھوٹے علاقوں کی ادلہ بدلی دونوں ممالک نے اپنی فوجی ضروریات کے مطابق کی۔ کشمیر میں مقبوضہ علاقوں کو واپس کرتے ہوئے پرانی جنگ بندی لائن کو بنیاد بناگیا۔25سال تک ریاست میں جو جنگ بندی لائن موجود تھی اس میں بڑی تبدیلیاں کی گئیں۔ نئی لائن کا نام جنگ بندی لائن کے بجائے لائن آف کنٹرول رکھاگیا۔ نومبر1974میں پاکستان کے وزیر عظم ذولفقار علی بھٹونے آزاد کشمیر کا دورہ کرتے ہوئے وہاں کے لیڈروں کے سامنے ایک تجویز رکھی جس میں انہوں نے کہاکہ آزاد کشمیر کو پاکستان کا صوبہ بنایاجائے۔ انہوں نے کہاکہ سلامتی کونسل کی قرار دادیں ردی کاغذ کے ٹکڑے ہیں۔ اس اظہار سے ذوالفقار علی بھٹو نے کشمیر کے بارے میں عوام میں نئی ذہنی تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش کی۔ پاکستان نے بے شک شملہ معاہدے میں کشمیر کا مسئلہ موجود رکھا اور اس کے حتمی حل کے لئے دروازہ کھلا چھوڑ دیا لیکن بدلے ہوئے حالات میں اِس مسئلے کو نئے انداز اور نئی ضرورتوں کے مطابق حل کرنے کی ضرورت تھی۔ شملہ معاہدہ کی تمام دفعات پر ہندوستان اور پاکستان نے پانچ سال کے دوران عملدرآمد کیا۔ کتاب میں مزید اس حوالہ سے لکھا ہے ”صرف کشمیر سے متعلق دفعہ پرپاکستان ہندوستان کے ساتھ بات چیت میں کچھ مشکلات پانے لگا۔ کشمیر کے مسئلے کو روایتی ڈگر سے ہٹ کر حل کرنے سے پہلے ذولفقار علی بھٹو کو پاکستان میں ایک ساز گار فضاتیار کرنا تھی ۔ وہ انتخابات کے بعد اس مسئلے پر ہندوستان کے ساتھ ایک موافق فضاءمیں بات چیت کرنے کے خواہشمند تھے۔ انتخابات سے پہلے حکومت پاکستان نے کشمیر تنازعہ پر ایک وائٹ پیپر شائع کیا جس میں صاف طور پر بتایاگیاکہ کشمیر کے مسئلے پر اب ہندوستان کے ساتھ جنگ کرنے کا خیال احمقانہ ہے۔ اب دونوں ممالک کی بھلائی اسی بات میں ہے کہ محاذ آرائی کا راستہ ترک کیاجائے اور گفت وشنید اور مفاہت کی راہ کو اختیار کیاجائے۔ایک طرف شیخ محمد عبداللہ نے کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کے لئے ٹکراو¿ اور تصادم کا راستہ ترک کردیا۔ دوسری طرف بھٹونے بھی ٹکراو¿ کا رویہ چھوڑ دیا اور وہ بھی مفاہمت کے جذبے سے ہندوستان کے ساتھ باہمی مسائل حل کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ شیخ محمد عبداللہ اور بھٹونے مفاہمت کا راستہ اختیار کر کے حالات کے پس منظر میں کشمیر کے مسئلے کے حل کرنے کے لئے کام کرنا شروع کیاتھا۔1962میںہی پاکستان نے کشمیر کے بارے میں اپنے رویہ کو تبدیل کیاتھا۔ جب اکتوبر1962میں چین نے ہندوستان پر حملہ کر دیاتو امریکہ کی وساست سے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کشمیر پر بات چیت کا ایک طویل سلسلہ شروع کیاگیا۔ چھ ماہ سے زائد عرصہ تک ہندوستان اور پاکستان کے نمائندے کشمیر پر مذاکرات کرتے رہے۔ چھ ماہ کے دوران چھ بار جو بات چیت ہوئی اس میں تین اہم نکات پر تبادلہ خیال ہوا۔ ہندوستانی ڈیلی گیشن کے لیڈر سردار سورن سنگھ کی تجویز تھی کہ پاکستان کو پونچھ کا قصبہ اور تین ہزار مربع میل پر مشتمل دیگر چھوٹے چھوٹے علاقے پاکستان کو دے دیئے جائیں۔ بھٹو کی تجویز تھی کہ سارا جموں اور کشمیر کے کچھ علاقے ہندوستان کو دیئے جائیں ۔ یہ ساری بات چیت ریاست کی تقسیم پر ہوئی ۔ پاکستان کی طرف سے کشمیر کی تقسیم پر بات چیت کرنا ان یقین دہانیوں اور وعدوں کے خلاف تھا جن میں اس نے کہاتھاکہ کشمیر کا مسئلہ کوئی علاقائی مسئلہ نہیں بلکہ چالیس لاکھ انسانوں کا مسئلہ ہے۔ جب بات چیت ناکام ہوئی تو پاکستان نے دوبارہ رائے شماری پرزور دینے لگا۔صوفی محی الدین نے اپنی کتاب ’کشمیر1931سے1977‘میں رائے شماری متعلق لکھا ہے کہ ”رائے شماری کے موقف کو ترک کر کے ہندوستان کے ساتھ آئینی معاملات پر سمجھوتہ کیوں کیاگیا؟ یہ سوال پوچھنے کا ہر اس شخص کو حق تھا جس نے اس موقف کے لئے قربانیاں دیں۔ اس حق کے حصول کے لئے جانیںنثار کرنے والے لوگوں نے شیخ صاحب سے کوئی اعتراض نہ کیا۔ وہ مفاہمت سے مطمئن نظر آتے تھے لیکن کانگریس کے ہمدرد اور حامی شیخ صاحب پر رائے شماری کے موقف چھوڑنے کا الزام کچھ اس انداز سے عائد کرنے لگے کہ لگتا تھا انہوں نے ہی رائے شماری کے لئے قربانیاں دیں ہیں۔ کانگریسی جان بوجھ کر یہ تاثر دینے لگے کہ رائے شماری کے موقف کو چھوڑ کر قوم سے غداری کی گئی ہے ۔کتاب میں وہ رقم طراز ہیںکہ کانگریسیوں کے اس منافقانہ رویہ سے قطع نظر یہ سوال اہم تھاکہ شیخ صاحب کو کن وجوہات نے رائے شماری کے موقف سے انخراف کرنے پر مجبور کیا۔ 1953کے بعد جن لوگوں نے ریاست کے سیاسی حالات کو گہرائی سے مطالعہ کیا ہو اور جو دنیا کے بدلتے ہوئے سیاسی رحجانات کا ادارک رکھتے ہوں وہ خود بخود اس تبدیلی کا جواب پاسکتے ہیں۔1953میں جب شیخ کو حکومت سے الگ کیاگیا تو کشمیر میں ایک زبردست تحریک اٹھی۔ اس وقت کشمیر کے مسئلے کو طاقت بخشنے والے تین عوامل تھے۔ کشمیر میں ایک جانبدار تحریک موجودتھی۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں یہ معاملہ زبردست بحث کاموضوع تھا اور اس کو فوری طور حل کرنے کا دباو¿ بڑھ رہاتھا۔ پاکستان بھی اس مسئلے کے حل کے لئے اپنے طور پر کوششیں کر رہاتھا۔ اگر چہ اس نے ابتدا میں یہ مسئلہ طاقت کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی تھی۔حریف قوتوں کو ان تین قسم کے دباو¿ کا سامنا کرنا پڑرہاتھا۔ 1953کے بعد یہاں کے حکمرانوں نے عوام کی مجاہدانہ سپرٹ ختم کرنے کی کوشش کی۔ لوگوں کو مفادات میں الجھا دیاگیا۔ پرمٹوں، لائسنسوں ، ٹھیکوں اور بڑے بڑے عہدوں کا جال بچھایاگیا۔ با اثر لوگوں کو رعایات کے ذریعہ اپنا ہم نوا بنایاگیا۔ ملاو¿ں ، مفتیوں اور بااثر لوگوں کی خدمات حاصل کرنے کے لئے ان کو خریداگیا۔ مفاد خصوصی کے چھوٹے بڑے طبقے پیدا کئے گئے۔ان طریقوں سے ریاست میں ایک نفسیاتی فضا پیدا کی گئی۔ ایک طرف جیل اور زنجریں تھیں دوسرے طرف باغ اور بنگلے تھے۔ ایک طرف زندگی کے عیش تھے۔ دوسری طرف مصیبتیں اور آلام تھے۔ راستے صرف دو تھے۔ ایک راستہ مصائب اور مشکلات کا تھا اور دوسرا عیش وآرام کاتھا۔ ایک عجیب کشمکش پیدا ہوگئی کہ دونوں راستوں میں سے کون سا راستہ اختیار کیاجائے اور کس راستہ پر قدم رکھاجائے۔ زندگی کے عیش جس راستہ میں تھے اس راستہ پر چلنے سے کچھ وقت تک احتراض کیاگیا لیکن آہستہ آہستہ یہی لوگوں کو اپنی جانب کھینچنے لگا۔ رائے شماری کا نعرہ جو پہلے پہل ایوانوں میں زلزلہ پیدا کرتاتھا ایک رسمی نعرہ بن گیا۔ اس میں کوئی زور رہااور نہ کوئی جوش۔ محاذ رائے شماری جو ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار تھی کے اندر نا پسندیدہ عناصر داخل کر دیئے گئے۔ اس جماعت میں مفاد پرستوں نے در اندازی کی اور اسے اندر ہی اندر کھوکھلا بنا دیا۔ دوسری سیاسی تنظیموں جن میں عوامی مجلس عمل اور دیگر مذہبی جماعتیں شامل تھیں کو باضابطہ طور اپنا وفا دار بنایاگیا۔1953کے واقعہ کے بعد بیس سال تک کشمیر میں رائے شماری کے نعرے بلند ہوتے رہے لیکن کھوکھلے اور بے جان ، بیس سال کے دوران عوامی مذاحمت کافی حد تک ختم ہوگی۔ ریاست میں عوامی مزاحمت کم ہونے کے ساتھ ہی عالمی سطح پر بھی کشمیر کا مسئلہ کمزور پڑنا شروع ہوگیا۔ مختلف ممالک کا رویہ کشمیر کے بارے میں بدل گیا۔ سلامتی کونسل میں کشمیر کا مسئلہ برائے نام مسئلہ رہ گیا۔پاکستان نے 1965میں کشمیر کے مسئلہ میں جان ڈالنے کے لئے ریاست میں در انداز داخل کئے۔ اس کارروائی سے عالمی رائے کشمیر کے بارے میں متحرک نہ ہوسکی ، خود پاکستان اس کارروائی کے بعد کشمیر میں اپنا اثر کھوبیٹھا“۔