پیرپنچال خو د مختیار پہاڑی ترقیاتی کونسل….؟
الطاف حسین جنجوعہ
7006541602
متنازعہ علاقہ ہونے کی وجہ سے ریاست جموںوکشمیر،برصغیر ہند میں حالات وواقعات کا مرکز ہے جوکسی نہ کسی وجہ سے ملکی وعالمی میڈیا کی سُرخیوں میں رہتی ہے۔آپ کبھی بھی اِس ریاست کے حوالہ سے یہ پیشن گوئی نہیں کرسکتے کہ آنے والے دنوں میں درحقیقت کیا ہوگا، حالات وواقعات یہاں اس طرح تبدیل ہوتے ہیں کہ عام آدمی کو سوچنے کا بھی موقع نہیں ملتا کہ ایسا کیونکرہوا ۔کبھی امن وامان کی صورتحال، کبھی سیاسی معاملات کا اُبھار، فرقہ وارانہ ماحول سے متعلق معاملات یہاں ہمہ وقت دامن گیر رہتے ہیں،کبھی ایک اُچھل جاتاہے تو کبھی دوسرا۔
دو ماہ کے زائد عرصہ سے درجنوں کی تعداد اضلا ع لہہ اور کرگل کے سیاسی ، مذہبی اور تجارتی وفود سے ملاقاتوں کے سلسلہ کے بعدگورنرستیہ پال ملک نے مرکزی سرکار کی مرضی ومنشاءکے مطابق 8فروری 2019کو ایک ایس آر اویعنی’شری رنبیر آرڈر‘نمبر110جاری کرکے لداخ کو صوبہ کا درجہ دے دیا۔ہیڈکوارٹر کا اعلان لہہ ضلع صدر مقام رکھنے کی بات کی گئی جس کے خلاف کرگل کی عوام نے سیاسی ومذہبی وابستگیوں سے بالاترہوکر ایسا ہمہ گیر اور منظم احتجاجی سلسلہ شروع کیاکہ تین دنوں کے اندر ہی انتظامیہ گھٹنے ٹیکنے پر مجبورہوگئی اورکرگل اور لہہ میں ففٹی ففٹی بنیادوں پر دفاتر کے قیام کا مطالبہ تسلیم کرلیا۔8فروری2019بروز جمعہ جس وقت گورنر انتظامیہ نے لداخ کو اعلیحدہ خطہ دینے کااعلان کیاتو چند ہی منٹوں بعدنیشنل کانفرنس کے سابقہ وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہاکہ2019کے انتخابات کے بعداگرنیشنل کانفرنس پرعوام نے اعتماد ظاہر کیاتوچناب(ڈوڈہ، رام بن اور کشتواڑاضلاع)اور پیرپنچال یعنی اضلاع پونچھ اور راجوری کو ڈویژن کا اسٹیٹس دیاجائے گا جس کا پہلے ہی وعدہ اٹانومی ڈاکومنٹ میں کیاگیاہے۔عمر عبدللہ کا یہ بیان آناتھاکہ راجوری پونچھ کے سیاسی لیڈران نے اسے پتھر کی لکیر مان لیا، سبھی سیاسی جماعتوں کے لیڈران نے بغیر کچھ زیادہ سوچے سمجھے (خود مختیار پہاڑی ترقیاتی کونسل کا مطالبہ یکسر بھول کر)سوشل میڈیا اور اخباری بیانات کے ذریعہ راجوری پونچھ کو ڈویژنل اسٹیٹس دینے کی مانگ کردی۔نیشنل کانفرنس،پیپلزڈیموکریٹک پارٹی اور کانگریس کے لیڈران نے پریس کانفرنسوں کے ذریعہ ایجی ٹیشن شروع کرنے کی دھمکیاںبھی دیں۔ایک دو دن کے اندر ایسا ماحول دیکھنے کو ملا کہ اب تو یہ لیڈران آسمان سے تارے توڑ لائیں گے، اخباری بیانات اور فیس بک ووہائٹس ایپ پر مطالبات کا سلسلہ جاری ہی تھاکہ 14فروری2019کو کشمیر کے پلوامہ ضلع میں لیتہ پورہ کے مقام پر خود کش کار بم دھماکہ ہوا جس میں سی آر پی ایف کے49کے قریب جوان جاں بحق ہوگئے جن کا تعلق بھارت کی 16ریاستوں سے تھا۔اس واقعہ کے بعد یکسر ریاست اور ملک کاسیاسی منظرنامہ ہی تبدیل ہوگیا۔
15فروری کو جموں میں بلوائیوں کی طرف سے مخصوص طبقہ جات، مخصوص محلہ جات اور مخصوص گاڑیوں کو نذر آتش کرنے اور انہیں نقصان پہنچانے کے واقعات کے بعد ایک ہفتہ تک کرفیو نافذ رکھاگیا۔14فروری کے بعد ایسے سلسلہ وار واقعات ہوئے کہ مقامی مطالبات دب کر ہی رہ گئے۔نئے معاملات جن میں ملک بھر میں کشمیریوں کیخلاف نفرت کی لہر، کشمیر میں حریت اور اعلیحدگی پسند لیڈران کی گرفتاریاں، جماعت اسلامی جموں وکشمیر پرپانچ سال کی پابندی، جماعت اسلامی کے اداروںکو مقفل کرنے، جماعت کے لیڈران اور کارکنان کی بڑے پیمانے پر پکڑدھکڑ،این آئی اے کا شکنجہ،26کوبھارتیہ فضائیہ کی پاکستانی حدود میں داخل ہوکر ائیرسٹرائیک،27فروری کو پاکستان کی جوابی کارروائی، پائلٹ ابھی نندن کی رہائی، دنیا بھر کی بڑی طاقتوں کی طرف سے بھارت پاک نیوکلیئرممالک کو کشیدگی کم کرنے پرزور ،وغیرہ ان گنت سامنے آئے ۔
10مارچ2019کو الیکشن کمیشن آف انڈیا کی طرف سے عام انتخابات(لوک سبھا)کا شیڈیول جاری کرنے کے بعد امن وقانون کی صورتحال سے توجہ ایکبار پھر سیاسی سرگرمیوں کی طرف شفٹ ہوگئی ہے۔راجوری پونچھ کے سیاسی پارہ میں آہستہ آہستہ اضافہ ہورہاہے لیکن 8فروری سے لیکر14 فروری تک ’ڈویژنل اسٹیٹس‘کی جو مانگ کی گئی ، وہ اب دب کر رہ گئی ہے۔پیر پنچال کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والوں کے مطابق 8فروری2019سے پہلے کبھی بھی راجوری پونچھ کوڈویژن کا درجہ دینے کی بات سامنے نہیں آئے، البتہ خود مختیار پہاڑی ترقیاتی کونسل کا قیام عوام کا دیرینہ مطالبہ رہا ہے، جس کے لئے کئی پلیٹ فارموں پر آواز بلند کی گئی ۔قانون ساز اسمبلی اور قانون ساز کونسل میں متعدد بار لہہ پہاڑی خود مختیار ترقیاتی کونسل کی طرز پر راجوری پونچھ میں کونسل کے قیام کے لئے قرار دادیں بھی لائی گئیں،کئی بار یہ معاملہ لیجسلیچرز نے زور وشور سے اُٹھایا۔دھرنے بھی دیئے گئے، مظاہرے بھی ہوئے، پریس کانفرنسیں، پریس بیانات بھی جاری ہوئے مگر ’ڈویژن کا مطالبہ‘نہیں تھا۔ اب چونکہ لداخ کو یہ درجہ ملا تو یکایک اس کی مانگ شروع کر دی گئی۔ لداخ کے لوگوں کا دیرینہ مطالبہ تھا ،جس کے لئے انہوں نے سیاسی، انتظامی سطح پرکافی جدوجہد بھی کی تھی اور اس کی حصولی کیلئے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ چھوڑا تھا۔یہ کہاجائے کہ راتوں رات ان کی یہ مانگ پوری ہوئی تو حقیقت پر پردہ ڈالنے کے مترادف ہے۔ ان لوگوں نے سیاسی قربانیاں بھی دیں اور اہم عہدوں کو بھی وسیع مفاد کی خاطر لات ماردی۔
مبصرین کا خیال ہے کہ موجودہ سیٹ اپ میں کسی بھی حکومت کیلئے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ جموں صوبے کے اندر چناب اور پیر پنچال کی صورت میں و مزیددو صوبے قائم کرے جس پر خزانہ عامرہ کواربوں کا خرچہ بردداشت کرناپڑسکتا ہے۔اگر ایسا ہوجاتا ہے تو کیا خطہ سیاسی طور مضبوط ہوگا….؟۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ ہل ڈولپمنٹ کونسل کے قیام کی صورت میں لہہ اور کرگل کی طرز پر (پونچھ اور اجوری )میں بھی کونسلیں تشکیل پاتیںجس میںمختلف نمائندگان براہ راست عوام کے ووٹوں سے چن کر آئیں گے۔کونسل کے پاس منصوبہ سازی،فیصلہ سازی اور فنڈز کے تصرف کے آزادہ اختیارات ہوں گے جس سے خطہ کی تعمیر وترقی یقینی بننے کے ساتھ ساتھ کافی حد تک سیاسی مضبوطی بھی ہوگی۔اس سے یہ بھی فائیدہ ہوگا کہ اچھی سیاسی قیادت تیار ہوگی اور جو لیڈران لوگوں کی خدمت کرنا چاہتے ہیں، انہیں ’ایم ایل اے یا ایم ایل سی ‘کی کرسی کے علاوہ کونسلروں کی صورت میں اپنی صلاحیتوں کو دکھانے کا موقع مل سکتاہے، اس طرح سے عوامی مسائل کافی حد تک حل ہوں گے۔ کونسل کے لئے ہرمالی سال کے دوران اعلیحدہ سے فنڈزمختص ہوں گے جس کے تصرف کا کلی اختیار بھی اِسی کو ہی ہوگا۔اس کے برعکس ’ڈویژن اسٹیٹس‘میں الگ ڈویژنل کمشنر،آئی جی اور مختلف محکمہ جات کے ڈائریکٹوریٹ قائم ہوں گے، جس صورت میں صرف بیروکریسی کی ہی بازآبادکاری ہوگی اورایسے میں عوامی بااختیارای دکھائی نہیں دیتی۔ایسی صورتحال میں صرف اور مزید افسران وملازمین عوام پرتھوپے جائیں گے ، جو لوگوں کا اور زیادہ استحصال کریں گے جیساکہ پہلے اس خطہ میں تعینات ہونے والا ہرسول وپولیس انتظامیہ کا افسر کرتاہے۔ زیادہ سے زیادہ انتظامی ڈھانچے قائم کرنے سے لوگوں کی ترقی ممکن نہیں جب تک کہ وہ سیاسی طور مضبوط ومستحکم نہ ہوں۔جانکار حلقوں کا ماننا ہے کہ راجوری پونچھ کی سیاسی قیادت کو چاہئے کہ عوام کو ’ڈویژن اسٹیٹس‘ کے سرسبز باغ دکھانے، آسمان سے تارے توڑ لانے کے خواب دکھانے کے بجائے (پیر پنچال خود مختیار پہاڑی ترقیاتی کونسل) کے لئے مخلص ہوکر جدوجہد کرنی چاہئے جس کی حصولی ممکن بھی ہے اور قابل عمل بھی ۔ایک مطالبہ جس کے لئے دو دہائی کے زائد عرصہ سے مانگ کی جارہی ہے ، کو چھوڑ کر یک دم’ڈویژن اسٹیٹس‘کی رٹ لگانے کا مطلب آئندہ بیس سال تک ایک نئے مدعے کو لیکر سیاسی روٹیاں سینکنے کے سوا کچھ نہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر راجوری پونچھ کی سیاسی قیادت نے پارٹی سیاست اور دیگر اختلافات سے اُٹھ کر کرگل کی عوام کی طرح یکجہتی، اتحاد کا مظاہرہ کیاہوتا تو ’ہل ڈولپمنٹ کونسل‘کا مطالبہ موجودہ گورنر ستیہ پال ملک کی قیادت والی انتظامیہ کے دور میں یقینی طور پورا ہوجاتاہے لیکن اس کے لئے تو سیاسی لیڈرشپ نے کبھی آواز بلند کی اور نہ ہی گورنر موصوف سے ملاقات کی زحمت گواراہ کی۔ عوامی حلقوں کاکہناہے کہ اگر راجوری پونچھ کے سیاسی لیڈران چاہئے وہ نیشنل کانفرنس، کانگریس، پیپلزڈیموکریٹک پارٹی یا بھاجپا سے تعلق رکھتے ہوں،کے پاس کوئی جادو کی چھڑی ہے کہ وہ ’ڈویژن اسٹیٹس‘دلاسکتے ہیں اور اگر اُن کی نظرمیں موجودہ ’سیٹ اپ‘میں ایسا ممکن ہے تو پھرخاموش کیوں ہیں ….؟، کیوں چند دن تک اخبارات اور سوشل میڈیا کی زینت بن کر اب منہ پر تالے چڑ گئے۔کیا ایسے مطالبات صرف چنداخباری بیانات جاری کرنے، سوشل میڈیا پر پوسٹ ڈالنے سے ممکن ہیں….؟!!۔لیڈران کو اس بات کی وضاحت کرنی چاہئے کہ آیا اس معاملہ پر انہوں نے خاموشی کیوں اختیار کیا، کیا وہ اپنے مطالبہ میں کامیاب ہوگئے، کیا انہیں حکومت سے کوئی یقین دہانی ملی ۔دراصل لیڈران بھی بخوبی یہ جانتے ہیں ایساہونہیں سکتا، صرف عوامی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کیلئے ممکن کو چھوڑ کر ناقابل عمل مانگ شروع کر دی۔
راجوری پونچھ کی سیاسی قیادت کبھی بھی ایسے مطالبات ومعاملات پر متفق اور یک زبان نظر نہیں آئی جوخطہ کے وسیع ترمفادات میں ہیں، کبھی صدق دلی ،نیک نیتی دکھائی نہیں دی۔جوڑ دوڑ کی سیاست، ایکدوسرے کی ٹاک کھینچنے ،پارٹی لیڈرشپ کے سامنے اپنے آپ کو اعلیٰ درجہ اور باقی سبھی نچلے درجے کا ظاہر کرنے کی سیاست سے پونچھ وراجوری کے لیڈران باہر نہیں نکل سکے ہیں، یہ چیز ان کے رگ رگ میں بس چکی ہے، جس سے باہر نکلنے میں کافی وقت لگتا ہے۔لوگوں کے بنیادی مسائل ومشکلات کی بات کرنے، انہیں آپس میں جوڑنے کی بجائے مختلف ناموں پرانہیں تقسیم درتقسیم کرنے میں زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔بظاہرکچھ کہتے ہیں لیکن بندکمروں میں عملی طور کچھ اور کرنے کا کہاجاتاہے،یہی وجہ ہے کہ پیر پنچال کوئی ایسا لیڈر نہیں پیدا کرسکی جس کی خطہ بھر میں عوامی مقبولیت ہو، جس کی بات حکومتی وانتظامی سطح پر وزن رکے ۔یہاں کے سیاسی لیڈران ’حالات کے پھیر بدل اور امکانات‘کی سیاست پر زیادہ بھروسہ رکھتے ہیں۔کبھی کشمیر تو کھبی جموںسے جونئی سیاسی دکان کھلتی ہے، اُسی کے گراہک بن جاتے ہیں۔آپسی رسہ کشی اور اختلافات کی وجہ سے صورتحال راجوری پونچھ کے عوام کی یہ ہے کہ نہ ہمیں کشمیری قیادت اور نہ جموں لیڈرشپ تسلیم کرتی ہے، دو کشتیوں میں سوار ہوکر نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے جیسی صورتحال ہے۔اس وجہ سے خطہ کے علاقائی سیاسی، سماجی، اقتصادی اور ترقیاتی مسائل کو کوئی اہمیت نہیں مل پاتی۔خطہ کی جامع تعمیر وترقی ، خوشحالی، سیاسی وانتظامی بااختیاری کیلئے سیاسی وابستگیوں سے بالاترکم سے کم مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرناناگزیر ہے۔ یہ عہد کرنے کی ضرورت ہے تو کوئی بھی جماعت اقتدار میں آئے مجموعی عوامی مفادات یک زبان آوازبلند ہوگی لیکن اس کے لئے جواتفاق واتحاد اور یکجہتی درکار ہے وہ سیاسی بصیرت اور دو راندیشی چاہئے جوکہ فی الحال کوسوں دور ہے۔ہل ڈولپمنٹ کونسل مطالبہ کی حصولی کیلئے ”پیرپنچال ہل ڈولپمنٹ فورم“ کی صورت میں مخلصانہ کوششیں کی جارہی ہیں ، توقع کی جاسکتی ہے کہ یہ موثر وبامعنی ہو۔وقت آگیاہے کہ سماج کے ذی شعورافراداور معززین کو بھی اپنا مثبت رول ادا کرنا ہوگا تبھی جاکر سیاسی لیڈرشپ کو بھی جوابدہ بنایاجاسکتا ہے بصورت دیگر کشمیر، جموں اور دہلی کی دھن پر ناچنے والے ہمارے اپنے لیڈران ہماری کبھی ترقی نہیں ہونے دیں گے۔
٭٭٭٭٭٭
نوٹ:مضمون نگار پیشہ سے صحافی اور وکیل ہیں۔
ای میل:[email protected]