بھاجپا جموں وکشمیر میں انتخابات کیلئے پوری طرح تیار
3فروری کو مودی انتخابی بگل بجائیں گے
چند دوستوں کے ساتھ مل کر مستحکم حکومت تشکیل دیں گے :رام مادھو
الطاف حسین جنجوعہ
جموں// بھارتیہ جنتا پارٹی جموں وکشمیر میں لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات کرانے کے لئے پوری طرح تیار ہے۔ پارٹی ریاست کی تمام لوک سبھا/اسمبلی نشستوں پر اپنے امیدوار کھڑا کریگے۔پارٹی کے لئے انتخابی مہم کا باقاعدہ آغاز وزیر اعظم نریندر مودی 3فروری 2019کو اپنے دورہ ریاست سے کریں گے۔ بی جے پی کچھ ساتھیوں کے ساتھ ملکر ایک ریاست میں مستحکم حکومت بنائے گی۔ ان خیالات کا اظہار بھارتیہ جنتا پارٹی کے قومی جنرل سیکریٹری رام مادھو نے پارٹی صدر دفتر تریکوٹہ نگر میں منعقدہ تقریب کے حاشیہ پر نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ’بی جے پی انتخابات کے لئے ایک دم تیار کھڑی ہے ہمیں کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہے، الیکشن کمیشن ریاست میں لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات کے حوالے سے جو بھی شیڈول طے کرے گا، ہمیں وہ منظور ہوگا،بی جے پی چاہتی ہے کہ ریاست میں جلد از جلد ایک عوامی منتخب حکومت معرض وجود میں آئے“۔ انہوں نے کہا ’افواہیں پھیلائی جارہی ہے کہ بی جے پی انتخابات کرانا نہیں چاہتی ہے،یہ افواہیں سراسر غلط ہیں، ریاست میں کچھ جماعتیں ہیں جن کا ماننا ہے کہ اگر جلد انتخاب ہوئے تو ہم مکمل طور پر ڈوب جائیں گی ہم انتخابات کے لئے پوری طرح تیار ہیں‘۔ رام مادھو نے کہا کہ بی جے پی ریاست میں سب سے زیادہ سیٹیں حاصل کرکے کچھ ساتھیوں کے ساتھ ملکر ایک مستحکم حکومت بنائے گی۔ ان کا کہنا تھا ’ہم اس ریاست میں سب سے زیادہ سیٹیں لیکر اور کچھ ساتھیوں کے ساتھ ملکر ایک مستحکم حکومت بنائیں گے‘۔ ان کا اس حوالے سے مزید کہنا تھا ’ہم سبھی سیٹوں پر امیدوار کھڑا کرنے کی کوششیں کریں گے چونکہ جموں وکشمیر میں ایک مخصوص صورتحال ہوتی ہے، اس کے پیش نظر ہمیں کسی اور کے ساتھ اتحاد کرنے میں کوئی پریشانی نہیں ہے ۔ پچھلی بار جب انتخابات ہوئے تھے تو ہم نے اکیلے اور اپنے دم پر انتخابات لڑے تھے۔ انتخابات کے بعد ہی ہم نے الائنس کیا تھا‘۔ مادھو نے کہا کہ بی جے پی جموں وکشمیر کے ساتھ ساتھ پورے ملک میں ہونے والے لوک سبھا انتخابات کے لئے تیار ہے۔ ان کا کہنا تھا ’پورے ملک میں لوک سبھا انتخابات ہونے ہیں۔ بی جے پی ان انتخابات کے لئے بھی مکمل طور پر تیار ہے۔ریاست میں انتخابی مہم کا باقاعدہ آغاز نریندر مودی 3فروری کو ریاست کے دورہ کے دوران کریں گے ۔ وزیر اعظم ریاست کے تینوں خطوں کا دورہ کریں گے۔ وہ پہلے لیہہ جائیں گے، پھر وہاں سے جموں آئیں گے اور پھر سری نگر جائیں گے۔ پارٹی نے جموں میں ایک عظیم الشان جلسہ منعقد کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور یہی سے انتخابی بگل بجے گا۔ضلع سانبہ کے وجے پور جہاں ایمز بننے جارہا ہے، میں ہی جلسہ کرکے لوک سبھا اور ریاستی اسمبلی کے انتخابات کی مہم کا آغاز کریں گے۔ انہوں نے بتایاکہ گزشتہ ہفتے بی جے پی کا قومی کنونشن منعقد ہوا جس میں پارٹی عہدیدار و کارکنان انتخابی تیاریوں میں جٹ گئے ہیں۔2014 کے لوک سبھا انتخابات سے مزید بہتر کارکردگی کو یقینی بنانے کی تیارں شروع کی ہیں‘۔جموں میں مودی کے جلسہ میں پارٹی کے قریب دو لاکھ کارکنان کی شرکت متوقع ہے ۔
پہاڑی طبقہ اور لداخ صوبہ کا مطالبہ
رام مادھو نے کہا کہ پارٹی نے ریاستی گورنر انتظامیہ کے سامنے پہاڑی طبقہ کو ریزرویشن دینے اور لداخ کو صوبے کا درجہ دینے کے مطالبات رکھے ہیں۔ انہوں نے کہا ’ہماری کچھ چیزوں کے لئے کوششیں جاری ہیں۔ ہم ریاستی سرکار سے ان چیزوں کو پورا کرنے کی مانگ کررہے ہیں۔ اگر ہم سرکار میں ہوتے تو کرہی لیتے۔ جو پہاڑی لوگ ہیں، ہم ان کے لئے ریزرویشن چاہتے ہیں۔ پہاڑی سماج جس کی زیادہ تعداد جموں میں مقیم ہے، کے حوالے سے ہماری ریاستی گورنر انتظامیہ سے مطالبہ ہے کہ ان کے حق میں فوری ریزرویشن کا اعلان کیا جائے۔ ہماری گورنر انتظامیہ سے گزارش ہے کہ اگر ہوسکے تو اس ریزرویشن کا اعلان وزیر اعظم مودی کے دورہ جموں وکشمیر سے پہلے ہی کیا جائے‘۔ انہوں نے کہا ’جہاں تک لداخ کو صوبے کا درجہ دینے کا معاملہ ہے تو ہم نے سرکار میں رہتے ہو اس کی کوششیں کی تھیں۔ ہماری گورنر انتظامیہ سے اپیل ہے کہ اس حوالے سے کوئی فوری فیصلہ لیا جائے‘۔
گورنر انتظامیہ کا سرکیولر
بی جے پی قومی جنرل سیکریٹری نے ریاستی گورنر انتظامیہ کی طرف سے جاری سرکیولر جس میں سرکاری ملازمین کی یوم جمہوریہ کی تقریبات میں شمولیت کو لازمی قرار دیا ہے، پر کچھ کشمیری مین اسٹریم سیاستدانوں کے اعتراضات پر کہا ’میں کشمیری سیاستدانوں کے بارے میں کچھ نہیں کہوں گا، وادی میں ایسے لیڈر ہیں جو رنگ بدلنے میں ماہر ہیں، جب وہ اقتدار میں ہوتے ہیں تو کچھ بولتے ہیں، جب اقتدار سے باہر ہوتے ہیں تو علیحدگی پسندوں جیسا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ وادی کشمیر کی علاقائی جماعتوں میں ایسے لیڈر ہیں، یہ پوری دنیا جانتی ہے“
کشمیری پنڈتوں کی گھر واپسی
کشمیری پنڈتوں کی گھرواپسی کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کا ارادہ ظاہر کرتے ہوئے بی جے پی کے قومی جنرل سیکریٹری نے کہا کہ پی ڈی پی ، بی جے پی حکومت میں کشمیری پنڈتوں کی واپسی کے سلسلے میں پیش رفتہ ہونے والی تھی تاہم حالات نے کروٹ لی جس کے باعث اس منصوبے پر کام نہ ہو سکا۔انہوں نے کہاکہ کشمیری پنڈتوں کی گھر واپسی کے سلسلے میں سابق مخلوط حکومت نے کام کیا تاہم منصوبہ پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکا۔ انہوںنے کہاکہ اگر بی جے پی ریاست میں حکومت تشکیل دینے میں پھر سے کام ہوتی ہیں تو کشمیری پنڈتوں کی گھر واپسی کے سلسلے میں ایک مضبوط لائحہ عمل اپنایا جائے گا۔ مرکزی حکومت نے ایک پروجیکٹ ترتیب دیا تھا جس کے تحت انہیں علیحدہ کالونیوں میں بسانے کا منصوبہ تھا تاہم حالات کچھ ایسے ہوئے کہ ہمیں اس منصوبے کو پست پشت ڈالنا پڑا ۔
وادی کی صورتحال بہتر
ریاست خاص کرو ادی کشمیر میں موجودہ سیکورٹی صورتحال کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میںبی جے پی لیڈر کا کہنا تھا کہ وادی میں آہستہ آہستہ حالات معمول پر آرہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ سال 2018کے دوران سیکورٹی فورسز کو بڑی کامیابیاں ملی ہیں کیونکہ جنگجو مخالف آپریشنز کے دوران سینئرکمانڈروں کو مار گرایا جس کی وجہ سے ملی ٹینٹ تنظیموں میں حوصلہ شکنی پائی جارہی ہے۔
ووٹنگ مشین
نیشنل کانفرنس صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی طرف سے دیئے گئے بیان جس میں انہوں نے کہاتھاکہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں ’چور مشینیں ہیں‘ پر رام مادھو نے کہا” فاروق عبداللہ کے بیان پر کوئی ردعمل نہیں دینا چاہتا۔ میں راجستھان، چھتیس گڑھ اور مدھیہ پردیش میں کانگریس لیڈر شپ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا وہ اس سے اتفاق کرتی ہیں،اگر ای وی ایم چور مشینیں ہوتیں تو کیا کانگریس ان ریاستوں میں انتخابات جیت پاتی‘۔ بی جے پی جنرل سکریٹری نے پی ڈی پی کی طرف سے سینئر لیڈر سید محمد الطاف بخاری کو پارٹی سے نکال باہر کرنے کے بارے میں کہا ’میں دوسری سیاسی جماعتوں کے اندرونی معاملات پر کچھ بولنا نہیں چاہتا، یہ وہی لیڈر ہیں جس کو گرینیڈ الائنس نے وزیر اعلیٰ کے امیدوار کے طور پر پروجیکٹ کیا تھا۔ جو لیڈر ابھی چند ماہ قبل ہی پی ڈی پی کی طرف سے وزیر اعلیٰ کے عہدے کا امیدوار تھا، وہ اتنا جلد غیر کیسے ہوگیا، اس کا جواب پی ڈی پی کے پاس ہی ہے‘۔
مقابلہ کی ہمت نہیں
رام مادھو نے ایک سوال کے جواب میں دعویٰ کیاکہ آج کسی بھی پارٹی میں وزیر اعظم مودی کا مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ کئی طرح کے اتحاد کئے جارہے ہیں، کئی طرح کے فرنٹ قائم کئے جارہے ہیں، اگر سبھی اپوزیشن جماعتیں ایک ہوجاتی ہیں تو بھی بی جے پی 51 فیصد کی لڑائی لڑنے کے لئے تیار ہے۔انہوں نے کہاکہ کل اپوزیشن جماعتیں نے کلکتہ میں جلسہ کیا، خود انہوں نے اعتراف کیا کہ ہم ساتھ تو آگئے مگر ہمارے پاس کوئی پروگرام نہیں ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے پاس نہ پروگرام ہیں ، نہ جھنڈا ہے اور نہ ایجنڈا ہے‘۔