سرحدی مکین اور بنکروں کی تعمیر پر سیاست!
الطاف حسین جنجوعہ
احوالِ پیر پنچال
7006541602
جموں وکشمیر ریاست کے صوبہ جموں میں چھمب سیکٹر سے شروع ہوکر ضلع پونچھ کے ساوجیاں سیکٹر تک کم از کم 300ایسے گاو¿ں ہیں جو گذشتہ 70سالوں سے کنٹرول لائن نامی لہو پیتی لیکر کے انتہائی نزدیک ہیں اور جن کا فاصلہ محض چند میٹر سے شروع ہوجاتاہے۔ ایل او سی یعنی حدمتارکہ کے نزدیکی گاو¿ں میں کثیر تعداد پونچھ اور راجوری اضلاع کی بھی ہے، جہاں لوگوں کو جانی تحفظ کی فکر ہمہ وقت ستاتی رہتی ہے۔ خود کار ، چھوٹے اور بڑے ہتھیاروں کی تڑتڑاہٹ کے بیچ مارٹر لوگوں کی دھمک سے یہاں پرعید ہو یا شادی بیاہ، قومی تہوار ہوں یا کوئی میلہ ، اُس کی خوشیاںپھیکی رہتی ہیں۔صورتحال اس طرح کی ہے کہ حدمتارکہ کے نزدیک رہنے والے لوگ فائرنگ کی آواز سے ہی اندازہ لگانے میں ماہر ہوگئے ہیں، فائرنگ کی شدت کتنی ہے، کس درجہ کے ہتھیاروں سے گولہ باری کی جارہی ہے۔یہاں کے لاکھوں باشندوں کی تیسری اور چوتھی نسل اس صورتحال سے گذر رہی ہے جس نے اپنے آپ کو حالات کے مطابق ڈھال لیا ہے۔ وہ تقسیم ریاست کے سانحہ کے وقت سے ہی حالات جنگ میں ہیں اور انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ دونوں ملکوں کے مابین تعلقات جتنے زیادہ تلخ ہوں گے، گولیاں مارٹروں اور توپ کے گولوں کے تبادلہ میں شدت اور تعداد میں اتناہی اضافہ ہوگا۔ یہاں پراُجڑنا، بسنا، اسکولوں میں جلد چھٹی ہوجاناایک معمول ہے۔ ہرسال کسی نہ کسی گاو¿ں میں ایسی صورتحال کے دوران کچھ زندگیاں تلف ہوتی ہیں۔ مویشی مارے جاتے ہیں، گھر اور دیگر جائیداد تباہ ہوجاتی ہے۔ فصلیں برباد ہوجاتی ہیں، انہیں اجڑنا پڑتا ہے اور پھر واپس جاکر تنکے چننے پڑتے ہیں۔حدمتارکہ پر ان غیر یقینی حالات سے متاثرہ دیہات کے لوگوں کو بچوں کی تعلیم میں رکاوٹ کی صورت میں بھی ادا کرنا پڑتاہے۔ یہاں کے لوگوں کے لئے عید اور جشن تبھی ہوتا ہے جب بندوقیں خاموش رہتی ہیں اور وہ آزادی سے چل پھر سکتے ہیں۔ اس حوالہ سے سال 2002-03کو ہوئے فائربندی معاہدہ کے بعد چند سالوں کو یہاں کی عوام کبھی بھلا نہیں پارہی۔ سرحدوں پرامن کا ماحول دوپڑوسی ممالک ہندوپاک کے مابین بہتر تعلقات سے مشروط ہے، جب ملکی سطح پر حالات بہترہوں گے یہاں پربھی لوگ امن وچین کی سانس لے سکیں گے ۔بڑے پیمانے پر ہورہے جانی ومالی نقصان کے پیش نظر مرکزی سرکار نے عارضی راحت کے طور پر سرحدی مکینوں کے جانی ومالی تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے انفرادی اور کیمونٹی بنکروں کی تعمیر کا فیصلہ کیاتھا۔اس کے تحت صوبہ جموں کے پانچ سرحدی اضلاع جن میں راجوری، پونچھ، کٹھوعہ، سانبہ اور جموں شامل ہیں کے لئے کل 14400بنکروں کو منظوری دی تھی ، ان میں13029انفرادی اور 1431کیمونٹی بینکرز شامل ہیں۔ تکمیل کے لئے مارچ 2019ڈیڈ لائن مقرر کی گئی تھی لیکن ان میں سے اب تک جموں، کٹھوعہ اور سانبہ میں صرف 951بنکرز ہی تعمیر ہوسکے ہیں ۔ پونچھ اور راجوری میں ابھی تک کسی بھی بنکر کی تعمیر ہی شروع نہ ہوسکی ہے۔ راجوری میں4918انفرادی اور 732کیمونٹی بنکرز جبکہ پونچھ میں ضلع میں 1320انفرادی(Individual)اور 688کیمونٹی بینکرز تعمیر کئے جانے تھے لیکن خطہ پیر پنچال اضلاع میں ابھی تک بنکروں کی تعمیر کے لئے ٹینڈرنگ عمل ہی مکمل نہ ہوسکا ہے۔ کئی بار ٹینڈر ڈالے گئے لیکن کوئی بھی ٹھیکیدار حکومت کی طرف سے دی جانے والی رقم پرراضی نہیں ہوپارہاہے۔مینڈھر، منکوٹ اور بالاکوٹ سیکٹر میں تعمیر کئے جانے والے بنکروں کے لئے جس جگہ کی شناخت کی گئی ہے، اس پر بھی بعض مقامات پر لوگوں نے تحفظات کا اظہار کیاہے۔ مقامی لوگوںکی شکایت ہے کہ بنکروں کی تعمیر بھی سیاست کا شکار ہوکر رہ گئی ہے۔ انفرادی طور تعمیر کئے جانے والے بنکرز کے لئے سیاسی ومالی اثر رسوخ رکھنے والے لوگوں کے گھروں کے نزدیک جگہ کی شناخت کی گئی ہے جبکہ غریب وبے سہارا شخص کو کوئی پوچھ نہیں رہا۔ بنکروں کی تعمیر میں انتظامیہ کی طرف سے جومنصوبہ تیار کیاگیاہے، اس میں بھی غریب وبے سہارا لوگوں کو کوئی جگہ نہیں ملی ہے۔وہ لوگ جن کے مینڈھرصدر مقام ، پونچھ ضلع صدر مقام اور جموں میں اعلیٰ شان مکانات ہیں، کو ہی زیادہ ترجیحی دی گئی ہے۔قارئین کو بتاتے چلیں کہ سرحدی علاقوں کی تعمیر وترقی کے لئے مرکزی سرکار کی طرف سے ’بارڈر ایریا ڈولپمنٹ پروگرام‘(BADP)نامی اسکیم چلائی جارہی ہے لیکن بدقسمتی سے گندہ سیاست اور سرکار کے متعلقہ افسران کی لاپروہی کے سبب اس کا بھی فائیدہ مستحقین کو نہیں مل رہا۔ سال 2010-11سے2018-19مالی سال کے دوران مرکزی سرکار نے جموں وکشمیر میں سرحدی متاثرین کی بہبودی کے لئے مجموعی طور پر 1227.94کروڑ روپے فراہم کئے ہیں۔اس سے انتظامیہ کے غیر سنجیدہ پن کہیں یا پھر ریاست کے سرحدی علاقوں میں رہائش پذیر لوگوں کی بدقسمتی مگر یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمیشہ بندوق کے سائے میں زندگی گذارنے والے لوگ اپنے جائز حقوق سے محروم ہیں۔ریاستی سرکار بی اے ڈی پی کے تحت خرچ 83.64کروڑ روپے کی یوٹیلائزیشن سرٹیفکیٹ’سندِتصرف‘مرکزی وزارت برائے داخلہ امور کو جمع کرنے میں ناکام رہی ہے جس کے نتیجہ میں مرکز ی سرکار نے بی اے ڈی پی کے تحت فنڈنگ میں کٹوتی کی ہے ۔حکومت ہند نے سال 2010-11سے2018-19تک بارڈر ایریا ڈولپمنٹ پروگرام کے تحت سرحدی علاقوں کی فلاح وبہبودی کے لئے1227.94کروڑ روپے فراہم کئے ہیں۔اتنی خطیر رقم کا تصرف کس حد تک منصفانہ ہوا ہے یا ان کروڑوں پیسوں نے لوگوں کی کتنی تقدیر بدلی ہے اس کا جواب بخوبی ایل او سی یعنی حدمتارکہ کے نزدیکی علاقوں میں رہنے والے لوگوں کی بنفس نفیس حالت ِزار دیکھ کر لگایاجاسکتاہے جہاں آج بھی سردرد کی ٹکی یامرہم پٹی کے لئے کئی کلومیٹر دور لوگوں کو پیدل جانا پڑتاہے، پورا دن پانی کا انتظام کرنے میں گذرتا ہے اور راتوں کو گھروں میں روشنی روایتی چراغ سے ہوتی ہے۔بدقسمتی سے یوٹیلائزیشن سرٹیفکیٹ وقف پر جمع نہ کرپانے کی وجہ سے کافی نقصان اُٹھانا پڑا ہے۔ بی اے ڈی پی اسکیم کی گائیڈ لائنز کے مطابق ریاستوں کو فنڈز دو قسطوں میں واگذار کئے جاتے ہیں ،سال گذشتہ کے دوران واگذار کی گئی رقم کے اخراجات متعلق یوٹیلائزیشن سرٹیفکیٹ جمع کرنے پر دوسرے سال کی 90فیصد کی پہلی قسط واگذار ہوتی ہے۔ بی اے ڈی پی اسکیم میں یہ واضح کیاگیاہے کہ اگرسال گذشتہ واگذر رقم کے تصرف سے متعلق یوٹیلائزیشن سرٹیفکیٹ میں کوئی کمی ہے تو رواں سا ل کی قسط واگذار کرتے وقت وہ رقم کاٹ لی جائے گی۔ مرکزی سرکار بالخصوص وزارت داخلہ کو چاہئے کہ سرحدی علاقہ جات کی تعمیر وترقی اور سرحدی مکینوں کے جانی ومالی تحفظ کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہ کیاجائے۔ ان کو سیاست کا شکار نہ ہونے دیاجائے۔بارڈر ایریا ڈولپمنٹ پروگرام کی منصفانہ عمل آوری اور بنکروں کی غیر جانبدارانہ تعمیر کے لئے حکومت کو اعلیحدہ سے مشاورتی بورڈ یا نگراں ادارہ کا قیام عمل میں لانا چاہئے جس میں علاقہ کے عوامی نمائندگان بھی شامل ہوں۔ایک ایسا موثر طریقہ کار اختیار کیاجائے تاکہ جس میں فنڈز کا بہتر استعمال ہوسکے۔سرحدی لوگ امن وچین سے رہ سکیں۔ سرحدی مکینوں کی تعمیر وترقی کو نظر انداز کرنا اور ان کے جانی ومالی تحفظ کے لئے ٹھوس اور مربوط پالیسی نہ اپنانا ریاست وملکی کی سیکورٹی اور سالمیت سے سمجھوتہ کرنے کے مترادف ہوسکتا ہے۔اس بات کو یقینی بنایاجائے کہ کم سے کم سرحدی مکین گندی سیاست کا شکار نہ ہوں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
نوٹ:مضمون نگار پیشہ سے صحافی اور وکیل ہیں
ای میل:[email protected]