جموں میںمسلمانوں کے بغیر’دسہرہ ‘نامکمل
33برس سے اُتر پردیش کے مسلمان کاریگر پتلے تیار کرتے ہیں
الطاف حسین جنجوعہ
جموں//راون کے خلاف رام چندر کی فتح کی یادگار کے طور پر منایا جانے والا ’دسہرہ ‘تہوار کی تیاریاںشہرجموں میں زور وشور سے جاری وساری ہیں۔رواں ماہ کی 18اور19تاریخ کو ملک بھر کے ساتھ ساتھ ریاست جموں وکشمیر بالخصوص صوبہ جموں کے مختلف علاقوں میں ہندو¿ طبقہ کے لوگ ’راون، میگھ ناتھ اور کمبھ کرن‘کے پتلے پھونکے جائیں گے جنہیں بدی پر نیکی کی علامت سمجھا جاتاہے۔ان پتلوں کو تیار کرنے کا کام زوروں پر ہے۔گیتابھون مندر جموں احاطہ میں پتلے بنائے جارہے ہیں اور انہیں تیار کرنے میں 50کے قریب مزدور کام پر لگے ہیں۔سب سے خاص بات یہ ہے کہ پتلے تیار کرنے والے کاریگر مسلم طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ریاست اُترپردیش کے میرٹھ،گرام نیا پوٹھی تحصیل سرونہ سے تعلق رکھنے والے مسلم طبقہ کے یہ کاریگرپچھلے 33برسوں سے جموں میں آکر دسہرہ کے لئے پتلے تیار کرتے ہیں۔ مسلمانوںکے بغیر جموں میں وجے دشمی یا دسہرہ کا تہوار نامکمل ہے کیونکہ اس دن کو پھونکے جانے والے راون، میگھ ناتھ اور کمبھ کرن کے پتلوں کو تیار کرنے میں محنت مسلمان کاریگروں کی ہوتی ہے اور وہی اس میں رنگ بھرتے ہیں۔یہ تہوار مذہبی رواداری، فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی علامت ہے۔ محمدغیاث الدین جوکہ پتلے بنانے والی ٹیم کی سربراہی کرتے ہیں اور سب سے تجربہ کار ہیں، نے بتایاکہ ُان کے والد نسبتی سراج الدین ٹھیکدار رہے ہیں، جن کی قیادت میں کاریگر اور مزدور جموں میں ہر برس دسہرہ سے ایک ماہ قبل آتے اور یہاں پتلے تیار کرتے کئے جاتے تھے۔ اب سراج الدین کا بیٹا محمد ریان ٹھیکیدار ہے۔انہوں نے بتایاکہ کاریگروں اور مزدوروں میں 18-19مسلم ہیںاور35-36ہندو¿ طبقہ کے لوگ ہیں جن کا تعلق ایک ہی گاو¿ں سے ہے۔محمد غیاث الدین نے مزیدبتایاکہ سناتن دھرم سبھا جموں کی دعوت پر وہ آتے ہیں اور گیتا بھون جموں میں پتلے تیار کرتے ہیں جنہیں پھر ریاست بھر میں سپلائی کیاجاتاہے۔ اس مرتبہ سرینگر میں کوئی پتلا نہیں بھیجا جارہا البتہ لہہ لداخ بھی پتلے جائیں گے۔ زیادہ تر سپلائی جموں صوبہ کے مختلف علاقوں میں ہوتی ہے۔ غیاث الدین نے بتایاکہ یہ تہوار مذہبی رواداری، آپسی بھائی چارہ کی بھی علامت ہے۔ انہوں نے بتایاکہ ہر برس وہ ایک ماہ قبل بھانس سے بھرا ٹرک اپنے ساتھ لاتے ہیں اور پھر یہاں پر پتلے تیار کئے جاتے ہیں، جن میں دھاگے، کاغذ، واٹرپینٹ اور پٹاخوں کا استعمال کیاجاتاہے۔ پتلے تیار کرنے میں مختلف لوگ الگ الگ کام کرتے ہیں، اس مرتبہ 60-65پتلے تیار کئے جارہے ہیں جس میں سب سے بڑا پتلا پریڈ گراو¿نڈ جموں او ر گاندھی نگر جموں میں پھونکا جائے گا۔ انہوں نے بتایاکہ ان کی ہدایت پر پتلے کا ڈھانچہ ، لمبائی اور چوڑائی تیار کی جاتی ہے۔ آخری روز ان پتلوں میں پٹاخے بھرے جاتے ہیں۔غیاث الدین نے مزید کہاکہ جب وہ ٹرک لیکر یہاں پر پہنچتے ہیں تو ہندو¿ طبقہ کے لوگ ان کا والہانہ استقبال کرتے ہیں اور سبھی جگہ چرچا ہوتی ہے کہ دسہرہ کی تیاریاں شروع ہوگئی ہیں، گیتا بھون میں بڑی تعداد میں لوگ ہر روز ان کے فن کو دیکھنے آتے ہیں۔دسہرہ یا دشہرہ نام سنسکرت لفظ’ دش ہرہ ‘سے نکلا ہے ۔ دش کے معانی ہیں دشنّ (دس سروالا) جو راون کا لقب ہے اور ہرہ کے معانی ہار کے ہیں۔ لغوی اعتبار سے راون کی ہار کا دن۔ ہندوو¿ں کی کتاب رامائن کے مطابق ”رام جی نے اسی دن راون کو ختم کیا تھا۔ اسے باطل پر حق کی فتح کے جشن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ دسہرہ کے دن رام جی نے روان کو ختم کرنے ور بیس دن بعد واپس آیودھیا آئے، جس کی خوشی میں دیوالی منائی جاتی ہے۔ آج بھی روشنیوں کا تہوار دیوالی، دسہرہ کے بیس دن بعد منایا جاتا ہے۔اس دن کو درگا دیوی کا یوم فتح بھی منایا جاتا ہے۔ اسی دن درگا دیوی نے ایک د±شٹ راکشس مہیشاسور پر فتح پائی تھی۔ دسہرہ کے ایک معنیٰ ”دشر آہ “ بھی لیے جاتے ہیں جس کے معنی ہیں دسواں دن۔ درگا دیوی نے نو رات اور دس دن تک برائیوں سے جنگ کی تھی اور دسواں دن فتح کا تھا۔ نیز یہی وجہ ہے کہ اس دشمی (دسویں دن ) کو وجے دشمی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ دسہرہ کے ایک معنی دس گناہوں کو لے جانے والا بھی ہے۔ دسہرہ کے تہوار کا مقصد دس قسم کے گناہوں یعنی کام (شہوت)، کرودھ (غصہ)، لوبھ (لالچ)، مد (تکبر)، موہ (کشش/لت)، متسر (حسد)، سوارتھ (خود غرضی)، انیائے (بے انصافی) امنوات (سفاکی) اور اہنکار (انا) کو ترک کرنا بتایا جاتا ہے یہ دس گناہ وہ تھے جو راون کے صفات تھے۔بعض مو¿رخین کا کہنا ہے کہ قدیم زمانے میں یہ موسمی تہوار تھا کیونکہ اس روز دن اور رات برابر ہو جاتے ہیں۔ اور موسم اعتدال پر آجاتا ہے۔ پھر اس تہوار پر مذہبی رنگ چڑھ گیا اور یہ راون کے خلاف رام چندر کی فتح کی یادگار کے طور پر منایا جانے لگا۔ ہندو مت میں تین تواریخ نہایت اہم اور مبارک تصور کی جاتی ہیں جن میں سے ایک شکلا پکش (دسہرہ) سے ایک ہے، دیگر دو ہیں چیتر شکلا کی اور کارتک شکلا ہیں۔دسہرہ کے دن لوگ نیا کام شروع کرتے ہیں، شستر پوجاکی جاتی ہے، قدیم دور میں بادشاہ لوگ اس دن فتح کی دعا کر کے میدانِ جنگ کے لیے روانہ ہوتے تھے، اس دن جگہ جگہ میلے لگتے ہیں۔ رام لیلا منعقد ہوتی ہے، راون کا بھاری پتلا بنا کر اسے جلایا جاتا ہے۔ دسہرہ یا وجے دشمی چاہے رام کی فتح کے دن کے طور پر منایا جائے یا درگا پوجا کے طور پر، دونوں ہی شکلوں میں اس میں شیتی (طاقت) پوجا اور شستر (ہتھیار) پوجا کی جاتی ہے۔ یہ خوشی اور فتح کی عید ہے۔ہندو مذہب کے مطابق، تریتا ی±گ میں اس دن پر، شری رام چندر، وشنو کے ساتویں اوتار، نے راون کو ختم کیا، جس نے اپنی لنکا کی اس ریاست میں رام کی بیوی سیتا کو اغوا کر لیا تھا۔ رام اور ان کے بھائی لکشمن، ان پیروکار ہنومان اور ایک فوج نے سیتا کو بچانے کے لیے ایک بڑی جنگ لڑی۔ پوری داستان ہندوو¿ں کی مقدس کتاب رامائن، میں تحریر کی گئی ہے۔