یو ا ین آئی
سری نگر // انتظامیہ نے بدھ کے روزسری نگر اور جنوبی ضلع شوپیان کے مختلف علاقوں میں لوگوں کی آزادانہ نقل وحرکت پر بندشیں عائد کرکے کشمیری علیحدگی پسند قیادت کی طرف سے دی گئی ’شوپیان چلو‘ کال کو ناکام بنادیا۔ تاہم وادی بھر میں غیرمعمولی ہڑتال کی گئی جس کے دوران نظام زندگی بری طرح سے مفلوج رہا۔ حریت کانفرنس کے دونوں دھڑوں کے سربراہان سید علی گیلانی و میرواعظ مولوی عمر فاروق اور جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف) کے سربراہ محمد یاسین ملک پر مشتمل علیحدگی پسند قیادت نے شوپیان میں پیش آئے فوج کی فائرنگ کے حالیہ واقعہ جس میں چار عام شہریوں اور دو مقامی جنگجوو¿ں کی موت واقع ہوئی، کے تناظر میں اپنے ایک مشترکہ بیان میں کہا تھا کہ جموں کشمیر کے لوگ بدھوار کو شوپیان کے مہلوکین کو خراج عقیدت ادا کرنے کے لئے شوپیان کا رخ کریں گے جبکہ اسی دن حسب اعلان کشمیری سیاسی قیدیوں کی سری نگر سے جموں منتقلی کے خلاف مکمل ہڑتال بھی کی جائے گی۔ کشمیر انتظامیہ نے ’شوپیان چلو‘ کو ناکام بنانے کے لئے بدھ کو نہ صرف سری نگر اور شوپیان اضلاع کے مختلف حصوں میں کرفیو جیسی پابندیاں عائد کر رکھیں، بلکہ درجن بھر علیحدگی پسند قائدین و کارکنوں کو تھانہ یا خانہ نظربند رکھا۔ فرنٹ چیئرمین یاسین ملک کو مسلسل تیسرے دن بھی سینٹرل جیل سری نگر میں بند رکھا گیا۔ انہیں 5 مارچ کو شوپیان ہلاکتوں کے خلاف احتجاج کے دوران گرفتار کیا گیا تھا۔ حریت (ع) چیئرمین میرواعظ نے اگرچہ اپنی خانہ نظربندی توڑتے ہوئے اپنے درجنوں ساتھیوں کے ہمراہ شوپیان کی طرف جلوس کی صورت میں بڑھنے کی کوشش کی، تاہم جوں ہی وہ نگین میں اپنے گھر سے باہر آئے تو وہاں پہلے سے موجود سیکورٹی فورسز بالخصوص ریاستی پولیس کے اہلکاروں نے انہیں حراست میں لے کر پولیس تھانہ نگین منتقل کیا۔ اس دوران وادی میں چلنے والی ریل خدمات بدھ کو مسلسل تیسرے دن بھی معطل رکھی گئیں، جبکہ جنوبی کشمیر کے بیشتر حصوں میں موبائیل انٹرنیٹ خدمات کی معطلی بدھ کو تیسرے دن میں داخل ہوگئی۔ انتظامیہ کی ہدایت پر وادی کے تمام تعلیمی ادارے بدھ کو تیسرے دن بھی بند رہے جبکہ مختلف اداروں کی جانب سے لئے جانے والے امتحانات ملتوی کردیے گئے۔ واضح رہے کہ ضلع شوپیان کے پہنو نامی گاو¿ں میں 4 مارچ کی شام فائرنگ کا ایک ہلاکت خیز واقعہ پیش آیا۔ فائرنگ کے اس واقعہ کے بعد ریاستی پولیس کو جائے وقوع سے ایک جنگجو اور چار عام شہریوں کی لاشیں برآمد ہوئیں جبکہ پہنو سے کم از کم دس کلو میٹر دور سعیدپورہ میں ایک میوزہ باغ سے لشکر طیبہ عاشق حسین کی لاش برآمد ہوئی۔ پہنو شوپیان فائرنگ واقعہ کے سبھی چار مہلوک عام شہریوں گوہر احمد لون، سہیل احمد وگے، شاہد خان اور شاہنواز وگے کی عمر 20 سے 25 برس کے درمیان تھی۔ فوج کا کہنا ہے کہ اس کے اہلکاروں نے اپنے دفاع میں جوابی فائرنگ کی جس کے نتیجے میں لشکر طیبہ سے وابستہ دو جنگجو اور ان کے چار ہمرائی جاں بحق ہوئے۔ فوج نے فائرنگ کے واقعہ میں جاں بحق ہونے والے شہریوں کو پہلے جنگجوو¿ں کے اعانت کار قرار دیا تھا۔ تاہم ریاستی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے فوجی دعوے کی قلعی کھولتے ہوئے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا تھا ’شوپیان میں کراس فائرنگ میں ہوئی شہری اموات پر انتہائی دکھی ہوں۔ میں سوگوار کنبوں کے ساتھ تعزیت کا اظہار کرتی ہوں‘۔ دریں اثنا شوپیان فائرنگ واقعہ میں چار عام شہریوں اور دو جنگجوو¿ں کی موت واقع ہوجانے اور کشمیری سیاسی قیدیوں کی سری نگر سے جموں منتقلی کے خلاف وادی بھر میں بدھ کے روز مکمل ہڑتال کی وجہ سے معمول کی زندگی بری طرح متاثر رہی۔ علیحدگی پسند قیادت نے کشمیری سیاسی قیدیوں کی جموں منتقلی کے خلاف بدھ کو ہڑتال کی کال دیتے ہوئے کہا تھا ’یہ بڑے افسوس اور حیرت کی بات ہے کہ محض ایک قیدے کے فرار کے معمولی واقعے جس میں خود حکمرانوں کی غفلت شعاری کو بڑا عمل دخل ہے کو بہانہ بنا کر تمام کشمیری سیاسی قیدیوں کو انتقام گیری کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور اس طرح مختلف جیلوں میں مقید کشمیری سیاسی نظر بندوں کے خلاف ایک جنگ سی چھیڑ دی گئی ہے‘۔ جنوبی کشمیر سے موصولہ اطلاعات کے مطابق سیکورٹی فورسز نے لوگوں کو شوپیان میں مہلوک نوجوانوں کے گھروں تک پہنچنے سے روکنے کے لئے مختلف سڑکوں کو بدھ کی صبح ہی سیل کردیا تھا۔ تاہم سینکڑوں لوگوں نے پابندیاں توڑتے ہوئے مہلوک نوجوانوں کے آبائی دیہات میں تعزیتی مجالس کا انعقاد کیا۔ موصولہ اطلاعات کے مطابق قصبہ شوپیان اور اس سے ملحقہ دیہات میں پابندیوں کو سختی سے نافذ کرنے کے لئے سینکڑوں کی تعداد میں سیکورٹی فورسز اور ریاستی پولیس کے اہلکار تعینات کئے گئے تھے۔ اطلاعات کے مطابق شوپیان، پلوامہ، اننت ناگ اور کولگام اضلاع میں بدھ کو مسلسل تیسرے دن بھی دکانیں اور تجارتی مراکز بند رہے جبکہ سڑکوں پر گاڑیوں کی آمدورفت بند رہی۔ ان سبھی اضلاع میں پبلک ٹرانسپورٹ سڑکوں سے غائب جبکہ سرکاری دفاتر اور بینکوں میں معمول کا کام کاج متاثر رہا۔ سرکاری ذرائع نے تاہم بتایا کہ جنوبی کشمیر میں صورتحال قابو میں ہے۔ جنوبی کشمیر سے گذرنے والی سری نگر جموں قومی شاہراہ پر بدھ کو بہت ہی کم گاڑیاں چلتی ہوئی نظرآئیں جبکہ اس شاہراہ پر عامدنوں کے مقابلے میں سیکورٹی فورسز کی اضافی نفری تعینات کی گئی تھی۔ شمالی کشمیر سے موصولہ اطلاعات کے مطابق سبھی تین اضلاع بارہمولہ، بانڈی پورہ اور کپواڑہ میں مکمل ہڑتال رہی۔ احتجاجی مظاہروں کے خدشے کے پیش نظر مین ٹاون بارہمولہ، سوپور، حاجن، کپواڑہ اور ہنڈوارہ میں سیکورٹی فورسز کی اضافی نفری تعینات کر رکھی گئی تھی۔ شمالی کشمیر کے تمام قصبوں میں دکانیں اور تجارتی مراکز بند رہے جبکہ سڑکوں پر گاڑیوں کی آمدورفت متاثر رہی۔ سرکاری دفاتر اور بینکوں میں معمول کا کام کاج متاثر رہا۔ ادھر سری نگر میں پائین شہر اور سیول لائنز کے تاریخی لال چوک علاقہ میں مکمل ہڑتال دیکھنے میں آئی۔ سرکاری ذرائع نے یو این آئی کو بتایا کہ شہر میں امن وامان کی فضا کو برقرار رکھنے کے لئے ایم آر گنج، نوہٹہ، صفا کدل، رعناواری ، خانیار، کرال کھڈ اور مائسمہ پولیس تھانوں کے تحت آنے والے علاقوں میں بدھ کو دفعہ 144 سی آر پی سی کے تحت پابندیاں نافذ رہیں۔ انہوں نے بتایا ’دفعہ 144 سی آر پی سی کے تحت یہ پابندیوں امن وامان کی صورتحال کو برقرار رکھنے کے لئے نافذ کی گئیں‘۔ انتظامیہ کے دفعہ 144 سی آر پی سی کے تحت پابندیوں کے اطلاق کے برخلاف سری نگر کے سبھی پابندی والے علاقوں کی صورتحال بدھ کی صبح سے ہی مخدوش نظر آئی۔ یو این آئی کے ایک نامہ نگار جس نے بدھ کی صبح پائین شہر کے مختلف حصوں کا دورہ کیا، نے نالہ مار روڑ کو تاربل سے لیکر خانیار تک خارداروں تاروں سے سیل کیا ہوا پایا۔ تاہم صفا کدل اور عیدگاہ کے راستے شیر کشمیر انسٹی چیوٹ آف میڈیکل سائنسز کو جانے والی سڑکوں کو بیماروں اور تیمارداروں کی نقل وحرکت کے لئے کھلا رکھا گیا تھا۔ انہوں نے بتایا ’نواح کدل، کاو¿ ڈارہ، راجوری کدل، گوجوارہ، نوہٹہ ، بہوری کدل، برابری پورہ اور خواجہ بازار کو جوڑنے والی سڑکوں پر خاردار تار بچھائی گئی تھی‘۔ نامہ نگار نے پابندی والے علاقوں میں دکانیں اور تجارتی مراکز بند پائے۔ انہوں نے بتایا کہ تاریخی جامع مسجد کو ایک بار پھر مقفل کردیا گیا تھا جبکہ اس کے باہر سیکورٹی فورسز کی اضافی نفری تعینات کی گئی تھی۔ نامہ نگار کے مطابق کچھ ایک حساس جگہوں پر سیکورٹی فورسز نے اپنی بلٹ پروف گاڑیاں کھڑی کردی تھیں۔ اس دوران ریاستی پولیس کے ایک ترجمان نے وادی میں امن کو بنائے رکھنے کے لئے لوگوں سے تعاون طلب کرتے ہوئے کہا کہ سری نگر اور جنوبی کشمیر بالخصوص شوپیان کے کچھ علاقوں میں احتیاطی طور پر پابندیاں نافذ کی گئی ہیں۔ انہوں نے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ کسی بھی طرح کی افواہ بازی پر کان نہ دھریں۔ ادھر سری نگر کے سیول لائنز میں کسی بھی طرح کی احتجاجی ریلی کو ناکام بنانے کے لئے سینکڑوں کی تعداد میں سیکورٹی فورس اہلکار تعینات کئے گئے تھے۔ سری نگر کے جن علاقوں کو پابندیوں سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے، میں دکانیں اور تجارتی مراکز بند رہے جبکہ پبلک ٹرانسپورٹ بھی معطل رہا۔ سیول لائنز کے بیشتر حصوں بشمول تاریخی لال چوک، بڈشاہ چوک، ریگل چوک، ہری سنگھ ہائی اسٹریٹ اور جہانگیر چوک میں تمام دکانیں بند نظر آئیں۔ وادی کشمیر کے دوسرے حصوں بشمول وسطی کشمیر کے گاندربل اور بڈگام اضلاع سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق اِن اضلاع میں بھی مکمل ہڑتال دیکھنے کو آئی ہے۔