الطاف حسین جنجوعہ
جموں//ریاست ہریانہ کی سینٹرل یونیورسٹی مہندر گڑھ میں ضلع راجوری سے تعلق رکھنے والے دوطلبہ کی مارپیٹ پر اپوزیشن جماعتوں نے اسمبلی میں احتجاجی مظاہرہ ، نعرہ بازی اور واک آو¿ٹ کیا۔اپوزیشن ممبران نے الزام لگایاکہ حکومت ملک کی مختلف ریاستوں میں مقیم جموں وکشمیر کے نوجوانوں اور تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم طلبہ وطالبات کے تحفظ کو یقینی بنانے میں ناکام رہی ہے۔ اجلاس کی کارروائی شروع ہوتے ہی نیشنل کانفرنس، کانگریس کے ممبران اپنی نشستوں سے کھڑے ہوگئے اور ہریانہ میں دو طالبعلموں کی مار پیٹ کا معاملہ اٹھایا۔ ممبران نے نعرہ بازی شروع کر دی ۔ سبھی ممبران ایکساتھ بول رہے تھے اور اسپیکر کی توجہ اپنی طرف مبذول کراناچاہتے تھے ، شور ورشرابہ کی وجہ سے کچھ بھی صاف صاف سنائی نہیں دیا۔ پارلیمانی امور کے وزیر عبدالرحمان ویری نے اپوزیشن ممبران کو اپنی بات ایک ایک کرکے سامنے رکھنے کا مشودہ دیا۔این سی کے علی محمد ساگر نے اپوزیشن کی طرف سے بولتے ہوئے اسپیکر کی توجہ ہریانہ میں پیش آئے واقعہ کی جانب مبذول کرائی۔ انہوں نے اس واقعہ کو بدقسمتی سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ کشمیری طلبہ کو ہمیشہ ریاست سے باہر ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس طرح کے واقعات سے طلبہ وطالبات ملک سے مزید الگ تھلگ ہوکر رہ جائیں گے یہ افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے طلبہ جو ہمارا مستقبل ہیں، کو ذہنی تناﺅ اور جسمانی زیادتیوں سے گزرنا پڑرہا ہے ، اس طرح کے مجرمانہ حملے ایک وسیع خلاءپیدا کریں گے اور طلبہ بقیہ ملک سے مزید دور ہوجائیں گے۔رکن اسمبلی پہلگام الطاف احمد کلو نے کیاکہ بھوپال میں شیر کشمیر زرعی یونیورسٹی کے ایک طالب علم کی گرفتاری کا معاملہ اٹھاتے ہوئے حکومت پر زور دیا کہ کشمیری طلاب کی حفاظت کو یقینی بنائے۔پی ڈی پی ایف کے حکیم محمدیٰسین نے کہاکہ ملک کی مختلف ریاستوں میں ہمارے بچے غیر محفوظ ہیں، جس طرح سے طلبہ وطالبات کو تنگ طلب کیاجارہاہے اس سے وادی کے اندر حالات مزید خراب ہونے کا احتمال ہے، حکومت کو اس طرف سنجیدگی سے سوچنا چاہئے۔ این سی کے محمد اکبرلون نے کہا”ہر ریاست جہاں جہاں جموں وکشمیر کے بچے زیر تعلیم ہیں یاکام کر رہے ہیں، وہ غیر محفوظ ہیں۔تاریگامی نے زور دیا کہ اس سلسلے میں تمام پارٹیوں کی طرف سے بااتفاق رائے ایک قرارداد منظور کرکے وزیر اعظم پر زور دیا جائے کہ وہ بیرون ریاست مقیم ریاستی طلبائ، تاجروں اور دیگر لوگوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کےلئے ذاتی مداخلت کریں۔کانگریس کے غلام محمد سروڑی نے کہاکہ یوپی اے دور حکومت میں پرائم منسٹراسکالرشپ اسکیم کے تحت 3ہزار بچوں کو سکالرشپ دیاگیا، جوکہ ملک کے مختلف تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے گئے، اس وقت کوئی معاملہ پیش نہیں آیا، آج ہر جگہ کشمیریوں کو تنگ وطلب کیاجارہا، ہرجگہ پٹائی ہورہی ہے، ریاستی سرکار طلبہ وطالبات کے جانی ومالی تحفظ کو یقینی بنانے میں ناکام رہی ہے۔ سروڑی نے بتایا” 24جنوری2018کو وادی چناب کے کیشوان علاقہ سے تعلق رکھنے والے 21سالہ صلاح الدین ولد نذیر احمد کی نعش سیکٹرنمبر4، گلی نمبر دس وجے نگر ہریانہ میں ملی، یہ لڑکا ایک انڈسٹری میں کام کرنے گیاتھا، اس کی گردن ٹوٹی ہوئی تھی، مہربانی کر کے اس معاملہ کی بھی تحقیقات کرائیں کہ یہ کسے ہوا“۔سی پی آئی (ایم)کے رکن اسمبلی کلگام محمد یوسف تاریگامی نے کہاکہ اس اس ایوان سے متفقہ طور پر ایک قرار داد پاس کر کے وزیر اعظم نریندر مودی سے گذارش کی جائے کہ وہ ملک بھر سے اپیل کریں کہ کشمیری طلبہ وطالبات اور نوجوانوں کو پریشان نہ کیاجائے، انہوں نے کہاکہ پارلیمنٹ اجلاس چل رہاہے، اس ایوان سے متفقہ طور پر اگر قرار داد پاس کی جائے تو اس کے اچھے نتائج برآمد ہوں گے۔ کانگریسی ممبر اسمبلی وقار رسول نے تاریگامی کی حمایت کرےت ہوئے مطالبہ کیا کہ وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر اعلیٰ کو ایسے واقعات کی روک تھام کی سمت میں کام کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا ’گذشتہ تین چار برسوں کے دوران ملک کے مختلف حصوں میں ہمارے ریاست کے بچوں کو زدوکوب کا نشانہ بنایا گیا۔ اسمبلی مبارک گل نے کہا ’کشمیری کہیں بھی جاتا ہے تو اسے تنگ کیا جاتا ہے۔ میری وزیر اعظم سے گذارش ہے کہ وہ معاملے میں بذات خود مداخلت کریں۔ ملوثین کے خلاف کاروائی ہونی چاہیے۔ جب آپ نوجوانوں کو تنگ کریں گے تو وہ مجبور ہوکر بندوقیں ہی اٹھائیں گے‘۔اپوزیشن ممبران کے احتجاج پر پارلیمانی امور کے وزیر عبدالرحمان ویری نے ہریانہ واقعہ کے بارے میں ایوان میں بیان دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہریانہ کے مہندرا گڑھ علاقے میںقریب15افراد پر مشتمل ہجوم نے جموں کشمیر سے تعلق رکھنے والے دو طالب علموں کی مارپیٹ کی جن کی شناخت آفتاب احمد ولد عبدالقیوم ساکنہ ڈنڈی دھڑ راجوری اور امجد علی ولد لال دین ساکنہ شاہدرہ شریف راجوری کے طور ہوئی ہے۔وزیر موصوف نے بتایاکہ یہ معاملہ اعلیٰ سطح پر ہریانہ سرکار اور وہاں کی پولیس کے ساتھ اٹھایا گیا ۔وزیر اعلیٰ کی ہدایت پر ریاست کے پرنسپل سیکریٹری ہوم اور ڈی جی پولیس نے ہریانہ کے اپنے ہم منصبوں کے ساتھ بات کی۔واقعہ کی نسبت ایف آئی آر درج کرنے کے بعدتین افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جبکہ مزید تین کی نشاندہی بھی کی جاچکی ہے۔انہوں نے یہ بات زور دیکر کہی کہ شرپسندوں کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔انہوں نے یہ بھی بتایا کہ بھوپال میں گرفتار کئے گئے زرعی یونیورسٹی کے طالب علم کو رہا کردیا گیا ہے اور وہ گھر لوٹ رہا ہے۔وزیر کے اس بیان پر ممبران مطمئن ہوئے اور کارروائی معمول کے مطابق شروع ہوئے۔بعد ازاں وقفہ سوال کے دوران یہ معاملہ الطاف کلو نے ایک بار پھر اٹھایا۔انہوں نے اسپیکر کی توجہ طلب کرتے ہوئے کہا کہ انہیں طلباءکی طرف سے پیغامات موصول ہوئے ہیں کہ ہریانہ حملے کا شکار ہوئے طلاب نے اپنی حفاظت کو لیکر طرح طرح کے خدشات ظاہر کئے ہیں۔انہوں نے طلبا کا پیغام پڑھ کر سنایا کہ”ہم یہاں خود کو غیر محفوظ تصور کرتے ہیں ،اگر ہمارے تحفظ کو یقینی نہیں بنایا گیا تو ہم سے واپس گھروں کو لوٹ آئیں گے“۔ان کی حمایت میں دونوں اپوزیشن پارٹیوں کے ممبران اپنی نشستوں سے کھڑے ہوکر احتجاج کرنے لگے۔علی محمد ساگر، مبارک گل، غلام محمد سروڑی، محمد اکبر لون، وقار رسول وانی اپنی نشستوں سے کھڑے ہوئے گئے اور کہاکہ حکومت اس معاملہ کو سنجیدگی سے نہیں لے رہی۔یہ بہت ہی حساس معاملہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ طلبہ کو صرف اس وجہ سے وحشیانہ طریقے سے مارا پیٹا گیا کہ ان کا تعلق جموں کشمیر سے ہے۔ الطاف کلو نے کہا ’ دو بچے نماز پڑھ کر آرہے تھے کہ راستے میں کسی نے انہیں پیٹا، بار بار جموں وکشمیر کے طلبہ وطالبات کو احساس دلایاجارہاہے کہ آ پ اس ملک کا حصہ نہیں ہوا۔کچھ منٹ ٹریجری بنچ پر بیٹھے ممبران سے مخاطب ہوتے ہوئے حکومت پر غیر سنجیدگی کا الزام لگاتے ہوئے حزب اختلاف کے ممبران ایوان سے واک آو¿ٹ کرگئے۔