جموں //سابقہ ریاستی وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے شوپیان ہلاکتوں کی اعلیٰ سطحی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کو مشورہ دیا ہے کہ وہ سیای روح کو جہنم کی آگ سے بچاو¿ اور ریاست کے حد اختیار معاملات پر مرکز کی بے جامداخلت اور فرمانات کے سلسلہ کو بند کیاجائے۔ وزیر اعلیٰ نے کٹھوعہ میں آٹھ سالہ بچی کے سانحہ کی میڈیکل رپورٹ حاصل کرنے اور شفاف تحقیقات کرنے پر بھی زور دیا۔ وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کے ماتحت محکمہ جات کے مطالبات زر پر بحث کے دوران عمر عبداللہ نے کشمیر کی موجودہ سیاسی صورتحال، سرحدوں پر فائرنگ، وزیر اعلیٰ کے عوامی دربار، اپوزیشن جماعتوں کے ممبران سے امتیاز ی سلوک روارکھنے، سنگ بازوں کو عام معافی اسکیم سے متعلق کنفیوژن، کابینہ میٹنگیں نہ کرنے، ایس آر او202، وائر لیس آپریٹرز، جموں وکشمیر کے افسران کو آئی اے ایس کا 50فیصد کوٹہ پر پچھلے چار برسوں سے عمل آوری نہ ہونے وغیرہ معاملات کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی51منٹ کی تقریر میں حکومت کی خامیوں کا لمبا چوڑا آپریشن کیا۔
سیاسی روح کا سودا
وزیر اعلیٰ نے یونان کے فراسٹ کی شیطان کے ساتھ دوستی اور سودے بازی کی مثال پیش کرتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہا” اس کہانی اور سودے کی مجھے اس لئے یا دآئی کہ کیونکہ مجھے کبھی کبھار یہ لگتا ہے کہ سیاسی طور پی ڈی پی نے بھی ایک ایسا ہی سودا کیا ہے، 6سالہ اقتدار ، چھ سالہ کرسی کے لئے ۔جس کیلئے بی بجے پی نے آپ کو کوئی تنگ وغیرہ نہیںکی اور شکایت کی گنجائش بھی نہیں دی“۔ عمر عبداللہ نے محبوبہ مفتی سے کہاکہ” اننت ناگ میں آپ الیکشن نہیں کرپائیں۔ بی جے پی والے خاموش رہے،امرناتھ یاتریوں پربہت بڑا حملہ ہوا، بی جے پی والے چپ رہے ۔ اگر کوئی اور ہوتا تو یہ طوفان مچاتےخاموش رہے، اسی طرح میں گورننس اور کرپشن کو لیکر اف تک نہ کی۔عمر عبداللہ نے محبوبہ مفتی سے کہا” کابینہ میں آپ نے اپنے منسٹر بڑھائے، بی جے پی کے وہیں رکھے،انہوں نے وہ تک تسلیم کیا۔ انہوں نے یہ سوچاکہ ہم انہیں یہ چھ سال دے دیں، عزت، شہرت، دولت طاقت سب کچھ لیکن ان کی سیاسی روح کو حاصل کریں گے۔ انہوں نے محبوبہ مفتی سے کہاکہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے آپ چھ سال کی عزت ، شہرت، دولت اور طاقت آپ کی سیاسی روح حاصل کرنے کے لئے دی ہے، اگر آپ سیاسی روح کو جہنم کی آگ میں ڈالنا چاہتی ہیں تو پھر جیسا چلتاہے، ویسا چلنے دو،لیکن اگر آپ چاہتی ہیں کہ اس الائنس کا خاتمہ آپ کے لئے اچھا ہوتو اس کے لئے آپ کو کڑی محنت ولگن، منت وسماجت کرنی پڑے گی، لفظوں کے ذریعہ نہیں بلکہ عملی طور پر بھی“۔ عمر عبداللہ نے وزیر اعلیٰ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا”آپ نے سیلف رول بیچا،ڈبل کرنسی بیچی، جوائنٹ مکیزم ، آپسی تال میل اور کشمیر بیچا….آج آپ کہہ رہی ہیں جو ملے گا وہ ہندوستان کے آئین سے ملے گا۔ اس کے بغیر کچھ ملے گا نہیں“۔ سابقہ وزیر اعلیٰ نے محبوبہ مفتی کو یاد تازہ کراتے ہوئے کہا” آپ وہ ہیں جنہیں میرے دور حکومت میں 2010میں بچوں کے منہ میں ٹافی نظر آئی لیکن 2016میں جب یہی ہمارے بچے گولی، پیلٹ اور ٹیرگیس کے شکار ہورہے تھے تو آپ نے اس وقت کہا کہ یہ کیا ٹافی لانے گئے تھے، یہ کیا دودھ لانے گئے ۔
امن وامان کی صورتحال
ریاست جموں وکشمیر میں سرحدوں اور وادی کے اندر پیدا شدہ صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہا”ریاست کے حالات کیا ہیں، یہ سب کے سامنے ہیں ،کوئی دن ایسا نہیں ہے جب ہمیں خون خرابہ کی خبر نہیں ملتی۔ چاہئے وہ ہمارے نوجوا ن، چاہئے ملی ٹینٹ، چاہئے ہمارے بہادر فوجی ، سیکورٹی فورسز کے اہلکار، ، بارڈر کے قریب رہنے والے لوگ کا ماراجانا اور زخمی ہونا روز کی خبر بن گئی ہے ۔ حالات اور زیادہ خراب ہورہے ہیں، ہم شوپیاں سے لیکر کٹھوعہ جائیں ، بے بسی، افسوس ، دکھ وور درد کے علاوہ اور ہمیں کچھ دیکھنے وسننے کو نہیںملتا۔ انہوں نے کہا”جہاں پر ہم نے امید کی تھی کہ اسکول اور کالجوں میں ہمارے بچے پڑھیں گے، پچھلے سال جوحالات پیش آئے ، وہ ابھی بھی ہم بولے نہیں ہیں۔سرینگر کے علاوہ باقی اضلاع کے سکول وکالجوں میں وہ نظارے وہ تصاویر، ابھی بھی ہمارے سامنے ہیں، جہاں پر کالج کے گیٹ کے اوپر سے پتھر اور گیٹ کے نیچے ٹیرگیس کے شیل استعمال کر رہے تھے۔ ایک غیر یقینی صورتحال بنی ہوئی ہے۔ انہوں نے اپنے دور اقتدار کا ذکر کرتے ہوئے کہا”میرے دور حکوت میں جو2010کے بعد حالات کچھ حد تک قابو پایا تھا، وزیر اعلیٰ صاحبہ (محبوبہ مفتی)اس وقت اپوزیشن میں تھیں اور اس طرف بیٹھی تھیں جہاں ہم آج بیٹھے ہیں۔بار بار کہتی تھیں کہ یہ ایک منصوعی امن وخاموشی ہے۔ پابندیاں اور کرفیو لگا کر ایسا کیاگیاہے لیکن اُس وقت کے حالات اور آج کے حالات مین زمین و آسمان کا فرق ہے۔آج کرفیو اور بندوشوں کا حال دیکھیں کیا ہے۔ شاہد ہی کوئی ایسا علاقہ یا شہر سرینگر کا شاہد ہی کوئی ایسا علاقہ ہو جہاں کسی نہ کسی دن کرفیو، بندیشیں نہیں عائد کی جاتیں۔جہاں مسجدوں میں نماز پڑھنے کی اجازت نہیں ،یہاں تک کہ پہلی مرتبہ عید کے روز کرفیو اور پابندیاں لگائیں گئیں اور لوگوں کو عید کی نماز ادا کرنے اجازت نہ د ی گئی۔ الیکٹرانک کرفیو تو اب عام بات ہے۔ اب انٹرنیٹ بند کرنے سے کتنا فائید اور نقصان ہوتا ہے اس کا فیصلہ آپ کر سکتی ہیں۔ سرحدی علاقوں کا ذکر کرتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہا”سرحدوں پرروز لوگوں کو نشانہ بنایاجاتاہے۔کچھ جگہوں پر افسران نے اچھا کام کیا جس سے لوگوں کو اتنی مشکلات نہیں اٹھانی پڑیں لیکن عام طور پر ہم جب بارڈر کے قریب رہنے والے لوگوں سے سنتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ انہیں کسی نے پوچھا ہی نہیں، انہیں اپنے ہی حال پر چھوڑا گیاہے۔ عمر عبداللہ نے کہا”ہم لوگوں سے کہتے ہیں کہ حکومت پر بھروسہ کریں لیکن ہم بھروسہ دلانے کے لئے اعتماد سازی کی بحالی کے لئے کوئی اقدامات نہیں کر رہے ۔ اس میں کچھ چیزیں آپ کو وراثت میں ملیں اور کچھ چیزیں آپ نے خود کیں۔
شوپیان ہلا کتیں
عمر عبداللہ نے شوپیاں میں پیش آئے واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ محبوبہ مفتی سے کہا”ایوان میں ہوئی بحث کے جواب میں آپ نے ،اُس وقت ریاست کو یقین دلایاکہ آپ نے جوایف آئی آر لگائی ہے اس کو منطقی انجام تک پہنچائیں گیں،اچھی بات ہے اگر آپ ایساکر سکیں لیکن ابھی تک ایسا ہونہیں پایا کہ سرکار کی طرف سے درج ایف آئی آر پر کارروائی ہوہوئی ہو“۔انہوں نے ماضی کے اعدادوشمار پیش کرتے ہوئے کہا” پرانا ٹریک ریکارڈ جورہا ہے ،اس کے بعد اب تو ایف آئی آر کی لڑائی ہوگئی ہے۔ پولیس کی ایف آئی ، اس کے مقابلہ میں فوج کی ایف آئی آر، آپ خداراہ مجھے بتائے جس تھانے میں یہ ایف آئی آر درج ہے، وہاںکا ایس ایچ او کرے گا کیا“۔انہوں نے وزیر اعلیٰ سے شوپیان میں فوج کے خلاف درج ایف آئی آر کی تحقیقات کے لئے اعلیٰ سطحی خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہاکہ دو ایف آئی آر کی لڑائی ہوگئی ہے، یہ اب معمولی ایف آئی آر نہیں رہی ، مجسٹریل انکوائری اپنی جگہ لیکن ان ایف آئی آر کے لئے اعلیٰ سطحی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دینی ہوگی تاکہ وہ اس کی اچھی طرح سے تحقیقات کر پائیں۔ عمر عبداللہ نے کہاکہ سال 2002کے بعد فوج کی طرف سے کی گئی انسانی حقوق خلاف ورزیوں کی شاہد پچاس کے قریب جموں وکشمیر سرکار نے شکایات مرکز کو بھیجیں ہیں ، جن میں سے 47کو مستر د کر دیاگیا او ر تین ابھی زیر التوا ہیں۔ ایک بھی شکایات پر سنوائی نہ ہوئی ہے، اور نہ ہی اس کو درست ماناگیاہے۔ جب یہ ہمارا ٹریک ریکارڈ ہے تو آپ (محبوبہ مفتی)اسمبلی میں کھڑی ہوکر کہتی ہیں اس ایف آئی آر کو منطقی انجام تک پہنچا ئیں گی۔ انہوں نے محبوبہ مفتی سے سوال کیاکہ ”ہمیں یہ بتائیں، جووراثت میں یہ پچاس کیس ملے ہیں، جن پر ابھی بھی Prosecutionکے لئے اجازت نہیں ملی، آپ کوایسے میں یہ کہاں سے اعتماد حاصل ہوا کہ اس ایک ایف آئی آر کو منطقی انجام تک پہنچا دو گی“۔ عمر عبداللہ نے کہا”جن مقدمات میں ایکشن ہوا، ان میں آرمی نے خود کیا ہے، میرے دور ِحکومت میں جب مژھل کا ہوا، اس وقت میں نے لوگوں سے کہا کہ میں آپ کو انصاف دلاکر رہوں گا۔ کورٹ مارشل کے ذریعہ ان فوجی اہلکاروںکے خلاف کارروائی ہوئی لیکن آج وہ سلسلہ آہستہ آہستہ Reverseکیاجارہاہے۔اسی طرح میرے دورِ اقتدار میںبرین میں بی ایس ایف کے ایک سنیئر افسر نے طاقت کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے ایک نوجوان کو مارا اس کی گرفتاری ہوئی اور کیس چلا لیکن آج آپ نے شوپیاں معاملہ کاجویقین دلایا ہے کہ اس پرشک ہوتا ہے ۔ان الفاظ میں وہ وزن نہیں “۔
پنچایتی انتخابات
حکومت کی طرف سے اعلان کر دہ پنچایتی انتخابات کا ذکر کرتے ہوئے عمر عبداللہ نے محبوبہ مفتی سے کہا” ایک طرف آپ کہتی ہیں کہ پنچایت کے انتخابات ہونے چاہئے لوگوں کو بڑھ چڑھ کر ان پنچایت انتخابات میں حصہ لینا چاہئے ۔آپ کہتی ہیں کہ ووٹر سامنے آنے چاہئے ، پھر ووٹر کی کیا حالات ہوتی ہے وہ میرے حلقہ انتخاب میں پچھلے سال کے پارلیمنٹ الیکشن میں ایک ووٹر کا کیا حال ہوا ، وہ پوری دنیا کو پتہ ہے“۔انسانی ڈھال بنائے گئے فاروق احمد ڈار کی مثال دیتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہا” اس کو جیپ کے آگے رسیوں سے باندھ کر 9 گاو¿ں سے گھمایاگیا۔ قصور کیا تھا، ووٹ ڈالنے کے لئے آیاتھا، اس کے بعد وہ نکلا تو وہاں پتھراو¿ ہوا ۔ فوج نے اس کو پکڑا گاڈی سے باندھا اور لے گئے ۔اس معاملہ کا انسانی حقوق کمیشن نے نوٹس لیا ، معاوضہ کا اعلان وا کہ لیکن کل ہی آپ کا منفی جواب آیا۔ آپ نے سیدھا کہا ہے کہ اگر ہم معاوضہ دیں گے تو یہ فوج کی حوصلہ شکنی ہوگی لیکن فوج نے تو اپنا کام کر دیا۔ باندھنے والے کو انعام میڈل ، باقی چیزیں ملیں لیکن جو باندھاگیا وہ نہ ادھر کارہا نہ اودھرکا۔عمر عبداللہ نے کہا” ایماناًمیں کہتاہوں کہ شاہد بہتر ہوتا اُس کے لئے کہ وہ پتھر باز ہوتا ، کم از کم اس کو حریت والے اپناتے، آج نہ ہم اسے اپنا سکتے ہیں کیونکہ اگر ایسا کریں گے تو معاوضہ دینا پڑے گا۔اس نے ووٹ ڈالا ہے، اس لئے حریت والے اپناتے نہیں، جوکہتے ہیں کہ تیرے ساتھ جو ہوا وہ ٹھیک ہوا۔ ووٹ ڈالنے کیوں گیا تھا۔بیچار ہ دو کشتیوں میں سوا ر ہوکر تباہ ہوگیا ہے۔سابقہ وزیر اعلیٰ نے محبوبہ مفتی سے کہا”جس کے ساتھ اتنی بڑی نا انصافی ہو ئی اس کو ہم انصاف نہیں دلاسکے اور آج اِس ایوان میں کہتی ہیں کہ تو اعتمادکہاں سے آئے گا،جب تک ہم اس اعتماد اور انصاف کو حاصل نہیں سکتے“۔
آصفہ قتل معاملہ
کٹھوعہ ضلع کی تحصیل ہیرا نگر کے گاو¿ں پٹہ رسانہ میں آٹھ سالہ آصفہ کے اغوا، عصمت ریزی اور قتل کا ذکر کرتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہا”میںحیران ہوا کل یہ سن کر کہ ابھی تک بچی کی میڈیکل رپورٹ نہیں آئی ہے۔ میڈیکل رپورٹ حاصل نہیں کیاگیاہے۔ کرائم سین اس کے ساتھ کیا ہوا ….وہ دوسری بات لیکن میڈیکل رپورٹ نہیں“۔ عمر عبداللہ نے محبوبہ مفتی کو آسیہ اور نیلوفر واقعہ کی یاد دلاتے ہوئے کہا” کیا محبوبہ جی آپ وہی نہیں ہیں، سال 2009میں شوپیاں کے واقعہ پر اتنا بڑھ چڑھ کراس کو آگے پیش کیاکہ انہیں انصاف ملنا چاہئے، ان کے ساتھ جوہوا غلط ہوا۔سرکار نے غلط کیا لوگوں کو اُکسایاگیا، ان کو سڑکوں پرلایاگیااور آج آپ (پی ڈی پی بی جے پی)کے دور ِ حکومت میں ایک معصو م بچی کے ساتھ کیا ہوا، ایسا سانحہ پیش آیا تو کارروائی کیوں نہیں“….؟۔عمر عبداللہ نے مزید کہا”اس واقعہ کے بارے میںنے بہت کچھ سنا ہے کہ اس کودوہرایا نہیں چاہتا کیونکہ کیا غلط ہے کیا صحیح وہ صرف تحقیقات کے ذریعہ پتہ چلے گا لیکن آہستہ آہستہ اس کی تحقیقات سے لوگوں کابھروسہ ُاٹھ رہاہے۔مہربانی کر کے اس میں پیش رفت کریں ، پہلے میڈیکل رپورٹ کو فوری طور منگوائیں۔ بنا میڈیکل رپورٹ کے آپ کون سی تحقیقات کر سکتی ہیں۔ معصوم بچی کے والدین کے پاس لائے گئے تھے آپ نے انہیں یقین دلایا ہے ،لہٰذا س یقین دہانی پر عمل کریں“۔
سنگ بازوں کو عام معافی
عمر عبداللہ نے سنگ بازوں کے لئے ’ایمنسٹی اسکیم‘پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا”ایمنسٹی اسکیم پر بھی مجھے کنفیوژن ہے۔ اب میں اس میں کہیں نہیں جاو¿ں گا کہ اعلان کس نے کیا، کہاں سے ہوا Case Reviewلیکن پہلے تو یہ کہا گیا پہلی مرتبہ سنگ بازیوں کو عام معافی دی جائے گی۔ ’ہمارے جو سنگباز ہیں، ان کو لیکر بھی آج کنفوژن پایا جارہا ہے۔ کہا گیا کہ پہلی بار سنگبازی کے مرتکب نوجوانوں کو عام معافی دی جائے گی۔ 2010 کے بعد ہم نے بھی ایسا ایک قدم اٹھایا تھا۔ کچھ دنوں بعد آپ نے کہا کہ دوسری بار سنگبازی کے مرتکب نوجوانوں کو عام معافی دینے پر غوروخوض کیا جائے گا۔ آپ مہربانی کرکے ہمیں سمجھائیں کہ یہ دوسری بار سنگبازی کے مرتکبین کون ہیں؟‘۔ انہوں نے کہا کہ دہلی کی طرف سے ڈکٹیشن دینے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا ’ایک سلسلہ چل پڑا ہے کہ ریاست کے فیصلوں کا اعلان دہلی سے ہوتا ہے۔ پتھربازوں کے خلاف درج کیسوں کی واپسی کا پہلا اعلان بھی ہم نے دہلی سے ہی سنا۔ مرکزی وزیر داخلہ نے گذشتہ دنوں ریاست کے لئے اٹھائے جانے والے بعض اقدامات کا اعلان کیا۔ یہ اعلانات ریاست کی طرف سے کئے جاسکتے تھے۔ آپ مرکز سے کہئے کہ جو ہمارے حد اختیار میں ہے، ایسے اعلانات ہمیں خود کرنے دیجئے۔ اس سے آپ کی کرسی کا تقدس اور اہمیت برقرار رہے گی‘۔ عمر عبداللہ نے محبوبہ مفتی کو یاد دلاتے ہوئے کہا”میرے دور اقتدار میں ہوم سیکریٹری پارلیمنٹ سے باہر نکل رہے تھے تو میڈیا سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ ریاستی سرکار سے کہا ہے کہ وہ کرفیو میں نرمی برتیں تو اس پر آپ (پی ڈی پی )لوگوں کی طرف سے وبال مچ گیا کہ کرفیو لگانے یا نہ لگانے کا فیصلہ بھی دہلی سے ہوتاہے۔ آپ اس کرسی پر بیٹھی ہیں کہ کرفیو آپ شاہد خود بھی نہیں لگاتیں، اس کا فیصلہ ایس ایس پی اور ڈی سی حالات کاجائزہ لیکر لگاتے ہیں، کبھی کبھار تو ایس ایچ او لیول پر بھی کرفیو لگایاجاتاہے۔محکمہ داخلہ کو لیکر کی بات ہے ، جموں وکشمیر کے کیڈر جائزہ لیاجائے۔افسران سے پتہ چلا ہے کہ ہمیں زمینی سطح پر عمل نہیں ہوا۔ جوفائیدہ ملنا تھا وہ ملانہیں وہ دیکھنے کی ضرورت ہے۔
ایس پی کی بھرتی میں دھاندلیاں
عمر عبداللہ نے ریاستی حکومت پر ایس پی اووز کی بھرتی عمل میں عدم شفافیت سے کام لینے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا ’ایس پی اووز کی بھرتی میں من مرضی ہوئی ہے۔ اس بھرتی عمل میں کوئی شفافیت نہیں دکھائی گئی ہے۔ کچھ لوگوں نے بتایا کہ سیاسی اثرورسوخ رکھنے والے افراد نے ایس پیز کو باضابطہ فہرستیں بھیجیں۔ یہ اسامیاں اس ریاست کے حالات کو اچھا کرنے کے لئے دی جاتی ہیں۔ ان کو مہربانی کرکے اپنا کاڈر بنانے کے لئے استعمال نہ کریں۔ اب کے بعد اگر آپ ایس پی اووز کا کوٹہ مل جاتا ہے تو مہربانی کرکے اس میں شفافیت سے کام لیجئے‘۔ انہوں نے محبوبہ مفتی سے کہاکہ ایس پی او صرف صرف آپ کے پارٹی کیڈر کو مضبوط کرنے کے لئے نہیں دیئے گئے تھے۔ کچھ جگہ سے آپ کی پارٹی کے لیڈران کی سفارش پر لگے ہیں اور ایس پی او نکالے گئے ہیں۔ اب جو ہوا اس کو بدل تو نہیں سکتے، البتہ آئندہ خیال رکھیں کہ قواعد وضوابط اور شفاف طریقہ سے ایس پی او کی بھرتی عمل میں لائی جائے۔اپوزیشن ممبران کے منہ بند کرنے کے لئے کچھ ایس پی او کو بھی دیءہیں۔
عوامی دربار
وزیر اعلیٰ نے کہاکہ حکومت کے کام کاج پر سوال اٹھاتے ہوئے کہاکہ آپ نے منصوبہ بندی کا نقشہ ہی بدل دیا۔ کہاں شیر کشمیر کا سنگل لائن ایڈمنسٹریشن اور کہاں آپ کے عوامی دربار وںکا سلسلہ….؟۔اس میں ایم ایل اے کے ادارہ کو بھی بخشا نہیں گیا۔ عوامی دربار کا تصور(Concept)آپ کو کس نے دیالیکن اس کا فائیدہ آپ نے ضرور حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ جوفیصلے اوراعلانات آپ کئے، ان کا کتنا عمل ہورہاہے۔وہ سب پر عیاں ہے کہ کیونکہ مطالبات زر کے دوران بہت سی شکایات کی ہیں، جو وعدے کئے گئے ان پر عمل نہیں ہورہاہے۔ اس میں مرحوم مفتی کا ذکر بھی ہوا اور آپ کا بھی ذکر آیا۔ عمر عبداللہ نے اعدادوشمار پیش کرتے ہوئے کہا”ایک سال میں مرحوم مفتی محمد سعید نے 662وعدے کئے تھے جن میں سے پچاس فیصد پر بھی ابھی تک عمل نہیں ہوا، یہی حال آپ (محبوبہ مفتی) کے عوامی درباروں کا ہے۔ عمر عبداللہ نے کہا” آپ (محبوبہ مفتی )نے 14اضلاع میں14دربار کئے جن میں آپ نے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 3000ہزار کے قریب ڈائریکشن دی اور اعلانات کئے جن پر عمل آوری کے لئے 600کروڑ کے قریب خرچہ آنا ہے ۔یہ تو ایم ایل اے کا کام ہوتا ہے کہ لوگوں کے مطالبات آپ کے سامنے رکھیں یا ضلع ترقیاتی بورڈ کے سامنے رکھیں لیکن ان عوامی درباروں کے دوران آپ کو جوصحیح لگاوہاں پر آپ نے ایم ایل اے کی بات مانی، جہاں نہیں Suit کیا تو وہاں پر آپ نے وفود کی صورت میں اپنی پارٹی کے ہارے ہائے امیدوراوںکے ذریعہ وہ بات کہلوائی اور ان مطالبات کوقبول کیاصرف اس مقصد کے لئے کہ کسی نہ کسی طرح ضلع ترقیاتی بورڈ کا سلسلہ بائی پاس ہوجائے۔ مطالبات کو پورا کرنے کے لئے آپ نے آپ نے ڈی سی کو کہا ہے کہ دستیاب فنڈز سے ان کو پورا کیاجائے۔ 600کروڑ کے آپ نے وعدے کئے ہیں، ان کے لئے بجٹ میں وزیر خزانہ نے صرف 60کروڑ بجٹ کا انتظام رکھا ہے باقی540کروڑ ڈی سی کو دستیاب وسائل سے پورا کرنے کو کہا ہے۔ اگر مرکزی سرکار کی اسکیموں کو چھوڑ دیاجائے تو پیچھے کل 300کروڑ روپے بچتے ہیں جبکہ آپ نے وعدوں کو عملی جامہ پہنانے ککے لئے 540کروڑ چاہئے، یہ کہاں سے آئیں گے۔ اس کا جواب آپ ہی دے سکتی ہیں“۔عمر عبداللہ نے محبوبہ مفتی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا”ایک طرف آپ نے ضلع ترقیاتی بورڈ کو کھوکھلا کر دیا تو دوسری اور عبدالرحمن ویری نے کھل کر کہا کہ جس ضلع ترقیاتی بورڈ میٹنگ میں وزیر اعلیٰ نہیں، اس میٹنگ کا کوئی فائیدہ نہیں اور وہ (ویری)گذارش کریں گے کہ ڈی ڈی بی کی صدارت وزیر اعلیٰ از خود کریں “
ایم ایل اے کا ادارہ
عمر عبداللہ نے وزیر اعلیٰ سے کہاکہ ایم ایل اے کے ادارہ کی اہمیت کو کم نہ کیاجائے ۔ انہوں نے کہا”ایم ایل اے کا خیال رکھیں۔اس بات کا احساس اپوزیشن میں آکر ہوجاتاہے۔ انہوں نے ایک مثال دیتے ہوئے کہاکہ وہ اپنے حلقہ میں ایک جائزہ میٹنگ لے رہے تھے جس میں اچانک انہیں سی اے پی ڈی کی یاد پڑی تو ایک افسر سے جب پوچھا کہ ان کے حلقہ میں کتنے Fair price دکانیں کھولی گئی ہیں تو جواب میں بتایاگیاکہ 70 فیئرپرائز شاپ۔ عمرعبداللہ نے انکشاف کیا”جب میں نے افسر سے پوچھا کہ فیئر پرائز شاپ کھولنے کی لوکیشن کا تعین کس بنیاد پر کیاگیا تو اس نے جواب دیاکہ 50سابقہ ایم ایل اے(پی ڈی پی )کی سفارش پر اور 20کی سفارش آپ سے مانگے ہیں“۔عمر عبداللہ نے مزید کہا” اس افسر نے غلطی سے کہا یا زیادہ ایماندار تھا لیکن کہہ ڈالا اور وہی کہہ ڈالا جس کا شاہد ہم سب اپوزیشن والے شکار ہیں“۔عمر عبداللہ نے کہا”ہم لوگوں سے چن کر آتے ہیں، لوگوں کوہم سے امیدیں ہوتی ہیں، ہمیں بائی پاس نہ کیاجائے اور دوسرے لوگوں کو سامنے نہ لایاجائے جو ہارے ہوئے ہیں یہ ٹھیک نہیں ہے۔ آپ جموں وکشمیر ریاست کی وزیر اعلیٰ ہیں نہ کہ پی ڈی پی اور بی جے پی کی چیف منسٹر۔ مہربانی کر کے اس میں آپ اپنے افسروں کے ذریعہ یہ واضح ہدیاات دیں کہ سیاسی مداخلت اور فیصلوںکو روک دیاجانا چاہئے۔ ایم ایل اے ، MLAہے چاہئے وہ جس بھی پارٹی کا ہو۔پی ڈی پی ایم ایل اے کی بھی وہی اہمیت ہونی چاہئے جوایک اپوزیشن کے ممبر کی ہے ۔ انہوں نے محبوبہ مفتی کو متنبہ کیا”ہمیشہ کے لئے آپ اس طرف نہیں ہوں گیںاور ہم اس طرف نہیں ہوں گے۔ کیاآپ چاہتی ہیں کہ جب ہم اقتدار میں آئیں تو آپ کے ساتھ بھی وہی سلوک ہو جو آج آپ ہمارے ساتھ کر رہی ہیں“۔
غلطیاں دوہرائی جارہی ہیں
سابقہ وزیر اعلیٰ نے 51منٹ کی طویل تقریر کے دوران انتظامیہ کے کام کاج بارے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ سے کہا”آپ نے یہ کہہ کر الیکشن جیتا اور لڑا کہ آپ ہم سے بہتر کریں گی ۔اگر آپ کو ہماری غلطیوں کو ہی دورہرانا تھا، اگر آپ کو ہماری خراب چیزوں کواور زیادہ خراب کرنا تھا تو پھر آپ کو ہمیں وہاں چھوڑنا تھا، پھر ہم دیکھ لیتے، کیونکہ آ پ کا اس طرف جانے کا ریاست کوئی فائیدہ نہیں ہے۔
عمومی انتظامی محکمہ
عمر عبداللہ نے کہاکہ پچھلے سال بھی انہوں نے عمومی انتظامی محکمہ میںچار پانچ چیزوں کا ذکر کیاتھا جس کا کوئی جواب نہیں آیا۔ انہوں نے کہا” ہم نے افسراوں میں جوابدہی، شفافیت اور ڈیلوری لانے کے لئے نظام قائم کرنے کے لئے Result Frame Workڈاکومنٹ تیار کی تھی، اس پر سب سے زیادہ اس وقت کے چیف سیکریٹری نے کی، جوکہ اس وقت میرے پرنسپل سیکریٹری تھے، اس سارے نظا م کو تیار کرے کے لئے ان کا ایک رول رہا لیکن اس دن سے لیکر آج تک 2015سے2018تک اس کا ہوا کیا “۔انہوں نے کہاکہ یہ بات سچ ہے کہ کچھ لوگ اس کو پسند نہیں کریں گے لیکن اس سے کافی بہتری آتی ۔اگر آپ (وزیر اعلیٰ)کے پاس اس سے کوئی بہتر حل تھا تو ٹھیک لیکن اگر نہیں توپھر اس پر ہی کیوں عمل نہیں کیاگیا“۔
ٹرانسفر پالیسی صرف کاغذی
عمر عبداللہ نے کہاکہ ٹرانسفر پالیسی کی صرف کاغذی پالیسی ہے۔ انہوں نے کہا”شاہد ہی کوئی ایسا محکمہ ہوگا جو اس ٹرانسفر پالیسی پرعمل کرے۔ آپ کوئی بھی محکمہ لے لیں مہینہ ، دو مہینہ تین مہینے میں ٹرانسفر ہوتی ہے۔ اگر کسی کی قسمت اچھی رہی تو چھ ماہ نکال لے لیکن لگاتار یکے بعد دیگرٹرانسفریں ہورہی ہیں۔GADکی ویب سائٹ پر ٹرانسفر آرڈز ہی ملتے ہی اس کے علاوہ کچھ بھی نظر نہیں آئے گا“۔
کابینہ اجلاس
کابینہ میٹنگیں منعقد کرنے کے سلسلہ کو بند کرنے پر وزیر اعلیٰ نے محبوبہ مفتی کی خبر لیتے ہوئے کہا”آپ شاہد کابینہ میں ایکدوسرے کو پسند نہیں کرتے کیونکہ کیبنٹ آپ کی زیادہ بیٹھتی نہیں ہے۔ آپ کے زیادہ تر فیصلے بائی سرکولیشن ہوتے ہیں “۔انہوں نے کہا”شروع شروع میں ہم نے بھی اس میں لاپرواہی دکھائی تھی جب آہستہ آہستہ ہمیں پتہ چلا کہ اس کی اہمیت کیا ہے تو ہم نے مہینے میں کم ازکم تین کابینہ اجلاس منعقد کئے چاہئے ایجنڈا ہو یا نہ ہو۔ ہم نے ایسی کابینہ میٹنگیں بھی کی ہیں جس میں ہمارے پاس کوئی ایجنڈ ا ہی نہیں تھا، پھر بھی ہم نے بیٹھ کر ریاست کے حالات بارے بات چیت کی، ایک دوسرے کی رائے جانی۔ آپ (پی ڈی پی۔ بی جے پی)کے پاس کابینہ کا ایجنڈا ہوتا بھی ہے تو اس کو بھی بائی سرکولیشن ہی کیاجاتاہے۔میں سنتا ہوں کہ 450کروڑ کے ٹھیکے سنیل بڈنگ سسٹم سے آئے، مہربانی کریں اس نظام کو ٹھیک کریں۔ اکثریت تو آپ کی کافی ہے۔ آپ تو کابینہ میں کوئی تنگ نہیں کرسکتا۔ویسے بھی بی جے پی والے آپ کو تنگ کرنے کے لئے بیٹھے نہیں ہیں،انہوںنے شاہد ہی آپ کی کوئی بات کابینہ میں ٹالی لیکن جوفیصلے کابینہ میٹنگ میں ہونے چاہئے تھے وہ GADاور پی ایچ قیو سے نکالے جاتے ہیں“۔
ایس آر او202
عمر عبداللہ نے ایس آر او202کو تعلیم یافتہ نوجوانوں کے ساتھ بہت بڑی نا انصافی قرار دیتے ہوئے وزیر اعلیٰ کو مشورہ دیاکہ وہ غلطی نہ دوہرائیں جس کا خمیازہ نیشنل کانفرنس بھگت چکی ہے۔ انہوں نے کہا”‘ایس آراو202میری سمجھ میں نہیں آتا کیونکہ یہ غلطی ہم بھی کر چکے ہیں جس کا خمیازہ ہم نے پارلیمنٹ کے الیکشن میں بھگتا۔ پھر ہمیں عقل آئی کیونکہ اس پر نوجوانوں میں غم وغصہ اور مایوسی کوپر دیکھا ۔ ایک ہی دفتر میں ایک ہی کام کر رہے ملازمین کو ملنے والی میں زمین آسمان کا فرق نا انصافی ہے۔ انہوں نے کہاکہ ایس آر او202کے تحت لگائے گئے ملازمین کوکو لداخ اور کرگل بیجتے ہو چھ یا سات ہزار ماہانہ پر یہ، نظام درست کیجئے۔
ہر چیز کیلئے پاکستان ذمہ دار نہیں
عمر عبداللہ نے کہاکہ پاکستان کو ہرکسی چیز کے لئے مورد الزام ٹھہرایا درست نہیں۔انہوں نے کہاکہ یہ صحیح ہے کہ پاکستان نے بہت ظلم اس ریاست پر کیا ہے لیکن بہت سارے اندرونی مسئلے بھی ، اس کے لئے یہاں کانظا م بہتربنانا ہوگا۔اس لئے ہربانی کرکے ، میری اس ریاست کے لوگوں کی طرف سے مود بانہ گذارش ہے کہ یہی ہوگی کہ آپ وہ تپسیا کریئے ، آپ اپنے ریاست کو چلانے کے طریقہ میں وہ بدلاا¿ لائے تاکہ آپ اپنی سیاسی روح کو اس جہنم کی آگ سے بچا سکیں اور اس ریاست کو وہ بہتر نظام آپ فراہم کرنے میں کامیاب ہوں جس کا آپ نے لوگوں سے وعدہ کیا ہے۔ عمر عبداللہ نے کہا”ہم اس سے زیادہ کچھ نہیں آپ سے مانگیں گے“
حکومت نئی دہلی اور ناگپور کی ڈائریکشن پر کام کر رہی ہے
ریاستی معاملات میں بھی مرکز سے فرمان جاری ہونا افسوس کن: ریگزن جورا
الطاف حسین جنجوعہ
جموں//کانگریس پارٹی نے حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ ریاست کے حد اختیار ’سٹیٹ سبجیکٹ‘معاملات پر بھی نئی دہلی کے فرمان کے بعد کارروائی ہوتی ہے۔ وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کے ماتحت محکموں کے مطالبات ِ زر پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کانگریس پارٹی لیجسلیچر لیڈر نوانگ ریگزن جورا نے وزیر اعلیٰ سے مخاطب ہوتے ہوہوئے ”شوپیان معاملہ میںآپ نے مرکزی وزیر دفاع کو پوچھنے کے بعد ایف آئی آر درج کی، حالانکہ یونیفائیڈ کمانڈ کی آپ سربراہ ہیں، آپ خود یہ فیصلہ لے سکتی تھی لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا“۔ انہوں نے طنز کرتے ہوئے کہاکہ آپ نے ناگپور سے اجازت نہیں لی جس کی وجہ سے فوج نے اسی معاملہ میں کونٹرایف آئی آر درج کی، آئندہ کوئی معاملہ ہوتو پھر آپ کو نئی دہلی کے ساتھ ساتھ ناگپور سے بھی پوچھنا پڑے گا۔ ریگزن جورا نے کہاکہ ریاست کے ماتحت جومعاملات ہیں، ان کے فیصلے خود کریں نہ کہ انہیں نئی دہلی کے سپرد کر دیاجائے۔انہوں نے کہاکہ شوپیان واقعہ پر ہوئی بحث کے جواب میں آپ(وزیر اعلیٰ)نے کانگریس قیادت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہاکہ جوکچھ اب تک کیا وہ بھاجپا حکومت نے کیا اور آج بھی کوکچھ کریں گے وہ مودی ہی کریں گے۔ انہوں نے کہاکہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنی NGO’sکے ذریعہ مختلف عدالتوں اور عدالت عظمیٰ میں ریاست جموں وکشمیر کی خصوصی پوزیشن کو چیلنج کیا۔ محکمہ منصوبہ بندی کا کوئی رول نہیں۔ انہوں نے ضلع منصوبہ کے تحت فنڈز بڑھانے، پبلک سروس کمیشن اور سروس سلیکشن بورڈ پر امتیاز برتنے کی شکایات کا ازالہ کرنے، کرگل اور لہہ اضلاع سے تعلق رکھنے والے پولیس جوانوں کی دو سال کے بعد روٹیشن بنیادوں پر ٹرانسفر کرنے، جموں وکشمیر پولیس گزیٹیڈکیڈرز بنانے کا بھی مطالبہ کیا۔
ریاست میں1953سے قبل کی پوزیشن بحال کی جائے:حکیم یٰسین
اندرونی خود مختیار سے چھیڑخانی کی وجہ سے مین سٹریم اور علیحدگی پسند نے جنم لیا
الطاف حسین جنجوعہ
جموں//پی ڈی پی نے ریاست جموں وکشمیر میں سال1953سے قبل کی پوزیشن بحال کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ حکیم محمد یٰسین نے قانون ساز اسمبلی میں وزیر اعلیٰ کی گرانٹس پر بولتے ہوئے کہاکہ ریاست جموں وکشمیر میں وزیر اعظم اور صدر ِ ریاست کے عہدوں کو کم کر کے وزیر اعلیٰ اور گورنر میں تبدیل کر دینے سے حالات خراب ہوئے۔ انہوں نے کہاکہ ریاست کی اندرونی خود مختیار ی کو کم کرنے کی وجہ سے جموں وکشمیر میں مین سٹریم اور اعلیحدگی پسند سیاست نے جنم لیا۔ انہوں نے کہاکہ ورکنگ گروپوں کی رپورٹس، مذاکراتکاروں کی تقرری کے بجائے اگر اس ایوان کے سبھی ممبران سیاسی وابستگیوں سے بالاترہوکر متفقہ طور پر جموں وکشمیر ریاست میں1953سے قبل کی پوزیشن بحال کرنے کے لئے مخلصانہ کوشش کریں تو آئین ِ ہند کے دائرہ میں قابل قبول حل ہوگا اور یہ ریاست کے سبھی علاقوں، حلقوں اور طبقہ جات کو قابل قبول بھی ہوگا۔ انہوں نے کہاکہ ریاست کو دلدل سے نکالنے کے لئے ایساکوئی ٹھوس عمل اٹھانا پڑے گا تاکہ ریاست میں لوگوں کی اس نظام پر اعتباریت اور اعتماد کو بحال کیاجائے۔ انہوں نے ہندوستان اور پاکستان کی حکومتوں پرزور دیاکہ وہ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے قریب آئیں کیونکہ ان دونوں پڑوسی ممالک کی دوریوں کا خمیازہ ہمیں بھگتنا پڑتاہے۔ حکیم محمد یٰسین نے کہاکہ وزیر اعظم نریندر مودی جموں وکشمیر کے حوالہ سے فیصلہ لے سکتے ہیں، ان کے پاس منڈیٹ ہے، اکثریت ہے اور وہ تلخ فیصلے لینے کی ہمت بھی رکھتے ہیں لیکن ان کی نظر بھی ابھی تک کوئی روڑ میپ(ڈائریکشن ) نہیں ہے۔ تعمیر وترقی زمینی سطح پر یقینی بنانے کے لئے یہاں سیاسی حالات ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے سال 2004میں مرحوم مفتی محمد سعید کی طرف سے بطور وزیر اعلیٰ اسمبلی حلقہ خانصاحب میں پولیس تھانوں/چوکیوں کے قیام کے حوالہ سے کئے گئے وعدوں کو عملی جامہ پہنانے کا بھی مطالبہ کیا۔
’تب ہم سادھو تھے آج شیطان ہوگئے‘
عمر کے بیان پر بھاجپا کا رد عمل ،آصفہ معاملہ کی سی بی آئی انکوائری کرانے کا مطالبہ کیا
الطاف حسین جنجوعہ
جموں//بھارتیہ جنتا پارٹی نے نیشنل کانفرنس سابقہ وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کی طرف سے دیئے گئے بیان پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہاکہ جب ”باپ اور بیٹا “(فاروق عبداللہ اور عمر عبداللہ)بھارتیہ جنتا پارٹی قیادت والی این ڈی اے حکومت کا حصہ تھے، ”تب ہم سادھو تھے اور آج ہم شیطان ہوگئے‘ہیں۔ وزیر اعلیٰ کے محکموں کے مطالباتِ زرپر بحث کرتے ہوئے بھاجپا کے ریاستی صدر اور ایم ایل اے جموں مشرق ست شرما نے کہاکہ عمر عبداللہ نے بلواسطہ طور پر بھاجپا کے لئے ’شیطان ‘لفظ استعمال کیا ہے اس کی وہ مذمت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ عمر عبداللہ نے فرقہ پرست بیان دیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ سال 2002سے این ڈی اے قیادت والی بھاجپا حکومت میں عمر عبداللہ وزیر مملکت برائے امور خارجہ رہ چکے ہیں۔ اس وقت بی جے پی والے سادھو تھے اور آج ہم شیطان ہوگئے۔ انہوں نے بی جے پی۔ ڈی پی حکومت نے ریاست کے اندر حالات کو پر امن بنانے کے لئے کوششیں کی لیکن حزب اختلاف نے ساتھ نہیں دیا۔8جولائی2016کو برہانی وانی کے مرنے کے بعد جو حالات پیدا ہوئے س پر21جولائی 2016کو وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے کل جماعتی میٹنگ بلائی لیکن نیشنل کانفرنس والوں نے اس میں شمولیت نہیں کی۔23جولائی کو وزیر داخلہ وادی کے دورہ پر آئے تو ان کے ساتھ کانگریس نے ملاقات نہیں کی۔ ست شرما نے سیکورٹی فورسز کو نشانہ بنانے کی مذمت کرتے ہوئے کہاکہ یہ ہندوستان کی عظیم جمہوریت کی دین ہے کہ آپ یہاں پر فوج کے خلاف بات کرتے ہو، ایسا اگر آپ پاکستان میں کرتے تو زبان کاٹ دی جاتی۔انہوں نے کہا”فوج پتھربھی کھائے، گولی بھی کھائے، گالیاں بھی اس کو پڑیں اور سزا بھی ملے‘۔ اس کے لئے سیکورٹی فورسز کے حوصلے پست نہ کئے جائیں۔ انہوں نے کٹھوعہ واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے مطالبہ کیاکہ آٹھ سالہ بچی کے معاملہ کی سی بی آئی انکوائری کرائی جانی چائیے۔انہوں نے کہاکہ آصفہ معاملہ پر متعدد سیاسی جماعتیں روٹیاں سینک رہی ہیں اس لئے اصل حقیقت جاننے کے لئے سی بی آئی سے تحقیقات کرائی جائے۔
وادی میں پیلٹ بندوق کے استعمال پر پابندی لگائی جائے
فوج ایک ادارہ، لیکن قصور وار کو گود میں لیکر پھر نہیں سکتے:تاریگامی
الطاف حسین جنجوعہ
جموں//سی پی آئی (ایم )نے مطالبہ کیا ہے کہ وادی میں پیلٹ گن کا استعمال بند کیاجائے۔ رکن اسمبلی کولگام محمد یوسف تاریگامی نے کہاکہ کشمیر میں سب سے زیادہ تشویش کن صورتحال پیلٹ گن کے استعمال سے پید ا ہوئی ہے۔بندوق سے نہیں جتنی پیلٹ گن نے تباہی مچائی ہے۔ انہوں نے وزیر اعلیٰ پرزور دیاکہ اگر پیلٹ گن کے استعمال کر بند کیاجائے تو یہ بہت بڑا اعتماد سازی قدم ہوگا۔ انہوں نے کہاکہ فوج کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا کوئی مقصد نہیں کیونکہ ماضی کے تجربات کو دیکھتے ہوئے اس سے کچھ ملنے والا نہیں۔ انہوں نے کہاکہ حکومت کے پاس بندوق کے سوا کوئی آپشن موجود نہیں۔ ہم پنچایتی انتخابات کے حق میں ہیں لیکن پہلے حالات تو ٹھیک کریں۔ انہوں نے کہاکہ نیشنل سیکورٹی کو کورپشن کا بڑا چیلنج درپیش ہے جس کے لئے بین الاقوامی ماہرین کی رائے حاصل کی جائے۔ انہوں نے کہاکہ سیاسی قیدیوں کی نظر بندی کے حوالہ سے تحریک تخفیف کے جواب میں کہاگیا ہے کہ کوئی بھی تسلیم شدہ سیاسی پارٹی کا رکن نظر بند نہیں بلکہ حقیقت کیا ہے سبھی جانتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ یہ جواب اقوام متحدہ میں نہیں دے رہے تھے بلکہ ریاستی اسمبلی میں، اس قدر گمراہ مت کیاجائے۔فوج کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ ہمار ایجنڈا سیکورٹی ایجنسیوں کے اداروں کے ساتھ کھلواڑ نہیں کر رنا ہے ہم صرف یہ چاہتے ہیں جس نے غلط کیا اس کو سزا ملے تاکہ اس ادارہ کی اعتمادیت اور اعتباریت پر کوئی آنچ نہ آئے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں قانون کو ہاتھ میں لینے والے کو گود میں لیتے پھیریں۔تاریگامی نے جموں وکشمیر سرکار میں NIAکی مداخلت پر بھی سوال اٹھاتے ہوئے پلوامہ کے فوٹوگرافر اور قائمہ کے شہری کی این آئی اے سے رہائی کرانے میں وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی سے ذاتی مداخلت کی اپیل کی اور کہاکہ انہیں صرف محض اس وجہ سے گرفتار کیاگیاہے کہ اس پرسنگ بازی کا الزام ہے۔
خطہ پیر پنچال کے سرحدی علاقوں کو نظر انداز کیاگیاہے:میاںالطاف
فائرنگ اور شلنگ سے متاثرین کے لئے خصوصی انتظامات کا مطالبہ کیا
الطاف حسین جنجوعہ
جموں//نیشنل کانفرنس نے سرحدوں پرپیداشدہ صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ قانون ساز یہ کے ایوان زیریں میں جمعہ کے روز اجلاس کی کارروائی شروع ہوتے ہی این سی کے سنیئر لیڈر اور رکن اسمبلی کنگن میاں الطاف احمد نے اس معاملہ کی طرف اسپیکر کی توجہ مبذول کراتے ہوئے کہاکہ راجوری پونچھ اضلاع میں ایل او سی(حدمتارکہ)پر حالات سنگین بنے ہوئے ہیں۔ لگاتار فائرنگ جاری ہے، تعلیمی ادارے بند ہیں، لوگ اپنا گھر بار چھوڑ کر در بدر ہیں۔ حکومت کی طرف سے سرحدوں پر پیداشدہ صورتحال کے متاثرین کیلئے کچھ نہیں کیاجارہا۔میاں الطاف احمد نے کہاکہ پونچھ راجوری میں ایل او سی کے علاقوں میںبینکروں کی تعمیر نہیں کی جارہی۔ایمبولینس دستیاب نہیں ہیں۔ انتظامیہ مکمل طور ناکام رہی ہے۔این سی کے علی محمد ساگر، مبارک گل اور کانگریس کے غلام محمد سروڑی نے اسپیکر سے کہاکہ حکومت کو ہدایات جاری کی جائیں کہ سرحدوں پر جاری شلنگ اور فائرنگ کے متاثرین کے لئے خصوصی انتظامات کئے جائیں۔ انہوں نے کہاکہ بارہا یہ معاملہ ایوان میں اٹھایاگیا ہے لیکن حکومت کی طرف سے اب تک کوئی ٹھو س اقدامات نہیں اٹھائے گئے ہیں۔
مژھل سیکٹر میں برفانی تودا گرآیا
3اہلکار ہلاک، ایک کی حالت تشویشناک
سرینگر//شمالی کشمیر کے مژھل سیکٹر میں برفانی تودا گر آنے کے نتیجے میں تین فوجی اہلکار ہلاک جبکہ ایک شدید طورپر زخمی ہوا۔ دفاعی ذرائع نے تصدیق کرتے ہوئے کہاکہ خصوصی ٹیموں کو مژھل کی طرف روانہ کیا گیا ہے۔یہ برف شار سہ پہر چار بجکر 30منٹ پر مژھل سیکٹر میں 21راجپوت پوسٹ پر گر آیا جس کے نتیجے میں تین فوجی اہلکار زندہ دفن ہو گئے۔نمائندے کے مطابق بادامی باغ سرینگر سے خصوصی ٹیموں کو ہیلی کاپٹروں کے ذریعے مژھل پہنچایا گیا جنہوں نے کافی مشقت کے بعد برف کے نیچے چار اہلکاروں کو باہر نکال کر اسپتال پہنچایا تاہم ڈاکٹروں نے تین فوجیوں کو مردہ قرار دیا جبکہ ایک کی حالت تشویشناک بنی ہوئی ہے۔ دفاعی ذرائع کے مطابق سہ پہر کے بعد مژھل سیکٹر میں تیز ہوائیں چلنے کے باعث پہاڑی سے برفانی تودا فوجی پوسٹ پر گرآیا جس کے نتیجے میں چار اہلکار برف کے نیچے زندہ دفن ہو گئے ۔ دفاعی ذرائع کے مطابق فوج کی خصوصی ٹیم نے برف کے نیچے دبے اہلکاروں کو باہر نکال کر فوری طورپر بادامی باغ اسپتال سرینگر پہنچایا تاہم ڈاکٹروں نے تین اہلکاروں کو مردہ قرار دیا جبکہ سپاہی بپن کی حالت اسپتال میں تشویشناک بنی ہوئی ہے۔ دفاعی ذرائع کے مطابق مہلوک فوجی اہلکاروں کی شناخت حوالدار کملیش کمار ، نائیک بلبیر اور سپاہی راجندر کے طور ہوئی ہے۔
عمر عبداللہ کا بیان جلتی پر تیل ڈالنے کی کوشش
وہ عوامی مندیٹ کی توہین کرر ہے ہیں : نرمل سنگھ
یو ا ین آئی
جموں// نائب وزیر اعلیٰ ڈاکٹر نرمل سنگھ نے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کی جانب سے قانون ساز اسمبلی میں کی گئی تقریر پر اپنی شدید ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ جلتی پر تیل ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عمرعبداللہ بھارتی عوام کے منڈیٹ (بی جے پی حکومتوں) کی توہین کررہے ہیں۔ ڈاکٹر نرمل جو کہ بی جے پی ایک سینئر لیڈر ہیں، نے جمعہ کو یہاں اسمبلی کے باہر نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا ’میں عمر صاحب کے بیان سے بے حد مایوس ہوا ہوں۔ میں عمر عبداللہ کی بہت عزت کرتا ہوں۔ لیکن جس طرح سے انہوں نے ایوان میں شیطان اور کسی دوسرے شخص کی کہانی سنائی ، انہوں نے اس کے ذریعے ریاستی اور مرکزی حکومت پر حملہ کیا ہے۔ انہوں نے بھارتی عوام کے منڈیٹ کی توہین کی ہے۔ اس کو نیچا دکھانے کی کوشش کی ہے‘۔ انہوں نے کہا ’ایک ایسا سابق وزیر اعلیٰ جو مرکز میں وزیر بھی رہ چکا ہو، کو ایسی باتیں نہیں کرنی چاہیں ۔ بہت افسوس ہوا ہے۔ میرے دماغ میں عمر صاحب کی جو تصویر تھی، اس میں فرق آئی ہے‘۔ نائب وزیر اعلیٰ نے عمر عبداللہ کی طرف سے انسانی ڈھال کے معاملے میں ریاستی حکومت کو لگائی گئی پھٹکار پر کہا ’یہ جلتی پر آگ لگانے کی کوشش ہے۔ اس کی نام نہاد مین اسٹریم سیاسی جماعتوں سے توقع نہیں کی گئی تھی۔ وہ صورتحال کو استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ عسکریت پسندوں کی جانب سے بے گناہ لوگ مارے جارہے ہیں۔ پاکستانی فائرنگ سے مارے جارہے ہیں۔ وہ اپنے منڈیٹ کی توہین کررہے ہیں‘۔ یو اےن آئی
وادی میں ہڑتال سے معمولات درہم برہم
شوپیاں چلو کال ناکام
شوپیاں اور پائین شہر میں غیر معلنہ کرفیو کا نفاذ، ضلعمیں 9 ویں روز بھی ہڑتال رہی
یو ا ین آئی
سری نگر// انتظامیہ نے جمعہ کے روز جنوبی کشمیر کے ضلع شوپیان اور سری نگر کے مختلف حصوں بالخصوص پائین شہر میں کرفیو جیسی پابندیاں جبکہ بیشتر علیحدگی پسند قائدین و کارکنوں کی نقل وحرکت پر روک عائد کرتے ہوئے کشمیری مزاحمتی قیادت سید علی گیلانی، میرواعظ مولوی عمر فاروق اور محمد یاسین ملک کی طرف سے دی گئی ’شوپیان چلو‘کی کال ناکام بنادی۔ اگرچہ یاسین ملک پولیس کو چکمہ دیکر شوپیان پہنچنے میں کامیاب رہے، تاہم انہیں وہاں کسی احتجاجی جلوس یا ریلی سے خطاب کرنے سے قبل ہی گرفتار کیا گیا۔ ان کی گرفتاری کے خلاف قصبہ شوپیان میں پرتشدد جھڑپیں بھڑک اٹھیں جن کے دوران سیکورٹی فورسز نے پتھراو¿ کے مرتکب احتجاجی نوجوانوں کو منتشر کرنے کے لئے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا استعمال کیا۔ اگرچہ گیلانی اور میرواعظ نے بھی اپنی خانہ نظربندی توڑتے ہوئے شوپیان جانے کی کوشش کی تاہم جہاں گیلانی کوائرپورٹ روڑ تک پہنچنے سے قبل ہی واپس بھیج دیا گیا وہیں میرواعظ کو گرفتار کرکے پولیس تھانہ نگین منتقل کیا گیا۔ پائین شہر میں کرفیو جیسی پابندیوں کے سبب پائین شہر کے نوہٹہ میں واقع تاریخی و مرکزی جامع مسجد میں مسلسل دوسرے جمعہ کو بھی نماز جمعہ ادا کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ لوگوں کو شوپیان پہنچنے سے روکنے کے لئے انتظامیہ نے جمعہ کو وادی بھر میں ریل خدمات معطل کر رکھیں۔ کشمیری مزاحمتی قائدین نے 2 فروری کو شوپیان کی مرکزی جامع مسجد میں اجتماعی طور نماز جمعہ ادا کرنے اور شہدائے شوپیاں کو خراج عقیدت ادا کرنے کا اعلان کرتے ہوئے عوام سے اپیل کی تھی کہ وہ اس روز مشترکہ مزاحمتی قیادت کے ساتھ شوپیاں کا رخ کریں جہاں شوپیاں سانحہ کے خلاف پر امن احتجاجی دھرنے کے ذریعہ عالمی ضمیر کو جھنجوڑنے کی کوشش کی جائے گی اور شہداءکے لواحقین کے ساتھ تعزیت اور یکجہتی کا اظہار کیا جائے گا۔ واضح رہے کہ شوپیان میں گذشتہ ایک ہفتے کے دوران شورش کے دو مختلف واقعات میں ایک 10 سالہ لڑکے سمیت پانچ شہریوں کی موت واقع ہوئی۔ ان میں سے 4 نوجوان جن کی عمر 20 سے 25 برس کے درمیان تھی، سیکورٹی فورسز کی احتجاجی مظاہرین پر فائرنگ کے نتیجے میں جاں بحق ہوئے۔ متعدد زخمی بشمول دو لڑکیاں مختلف اسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔ سرکاری ذرائع نے بتایا کہ ضلع شوپیان میں جمعہ کو متعلقہ ضلع مجسٹریٹ کے احکامات پر احتیاطی طور پر ٹرانسپورٹ اور عام لوگوں کے نقل وحرکت پر دفعہ144کے تحت بندشیںعائد رہیں۔تاہم اہم خدمات بشمول بینکوں پر یہ بندشیں عائد نہیں رہیں۔ جنوبی کشمیر سے موصولہ اطلاعات کے مطابق سیکورٹی فورسز نے لوگوں کو قصبہ شوپیان پہنچنے سے روکنے کے لئے اس کی طرف جانے والی تمام سڑکوں کو جمعہ کی صبح ہی سیل کردیا تھا۔ قصبہ شوپیان اور اس سے ملحقہ دیہات میں پابندیوں کو سختی سے نافذ کرنے کے لئے سینکڑوں کی تعداد میں سیکورٹی فورسز اور ریاستی پولیس کے اہلکار تعینات کئے گئے تھے۔ مقامی لوگوں نے الزام لگایا کہ سیکورٹی فورسز انہیں اپنے گھروں سے باہر آنے کی اجازت نہیں دے رہے تھے۔ اس دوران پورے ضلع شوپیان میں جمعہ کو مسلسل نویں دن بھی مکمل ہڑتال رہی جس کے دوران دکانیں اور تجارتی مراکز بند رہے جبکہ سڑکوں پر گاڑیوں کی آمدورفت معطل رہی۔ ٹیوشن سینٹر مسلسل نویں روز بھی بند رہے جبکہ سرکاری دفاتر و بینکوں میں بھی معمول کا کام کاج متاثر رہا۔ ضلع میں موبائیل انٹرنیٹ خدمات بدستور منقطع رکھی گئی ہیں۔ اس دوران کشمیر انتظامیہ نے مسلسل دوسرے جمعہ کو بھی سری نگر کے پائین شہر میں سخت ترین پابندیاں نافذ کرکے نوہٹہ میں واقع تاریخی و مرکزی جامع مسجد میں نماز جمعہ کی ادائیگی ناممکن بنادی۔ خیال رہے کہ جامع مسجد میں گذشتہ جمعہ یوم جمہوریہ کے موقع پر سخت ترین بندشوں کے ذریعے نماز کی ادائیگی ناممکن بنادی گئی تھی۔ سرکاری ذرائع نے بتایا ’ شہر میں خانیار ، نوہٹہ ، رعنا واری ، مہاراج گنج ، صفا کدل، مائسمہ اور کرالہ کھوڈ پولیس سٹیشنوں کے تحت آنے والے علاقوں میں احتیاطی طور پر جمعہ کو دفعہ 144 سی آر پی سی کے تحت پابندیاں عائد کی گئی تھیں‘۔ تاہم سرکاری دعوے کے برخلاف پائین شہر کے علاقوں میں جمعہ کی صبح سے ہی کرفیو جیسا سماں دیکھنے کو آیا۔ سیکورٹی فورسز نے پائین شہر بالخصوص نوہٹہ کی بیشتر سڑکوں کو جمعہ کی صبح ہی سیل کردیا گیا تھا جبکہ ان پر لوگوں کی نقل وحرکت کو روکنے کے لئے بڑی تعداد میں سیکورٹی فورسز اور ریاستی پولیس کے اہلکاروں کی نفری تعینات کی گئی تھی۔ نوہٹہ کے مقامی لوگوں نے بتایا کہ تاریخی جامع مسجد کے دروازوں کو جمعہ کی صبح ہی مقفل کردیا گیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ مسجد میں جمعہ کے لئے اذان دینے کی بھی اجازت نہیں دی گئی۔ دریں اثنا پابندیوں کے نفاذ کے طور پر نالہ مار روڑ کو ایک بار پھر خانیار سے چھتہ بل تک مکمل طور پر سیل کردیا گیا تھا۔ اس روڑ کے دونوں اطراف رہائش پذیر لوگوں نے بتایا کہ فجر نماز کی ادائیگی کے فوراً بعد اس روڑ پر سینکڑوں کی تعداد میں سیکورٹی فورسز اور ریاستی پولیس کے اہلکار تعینات کئے گئے اور وہ لوگوں کو اپنے گھروں سے باہر آنے کی اجازت نہیں دے رہے تھے۔ پابندی والے علاقوں میں واقع ٹیوشن سینٹروں، بینکوں اور دیگر دفاتر میں معمول کی سرگرمیاں بری طرح سے متاثر رہیں۔ تاہم پائین شہر کے برخلاف سری نگر کے سیول لائنز میں زندگی معمول کے مطابق رواں دواں رہی۔ لبریشن فرنٹ کے ایک ترجمان نے کہا کہ فرنٹ قائد محمد یاسین ملک جو پولیس گرفتاری سے بچنے کے لئے علالت کے باوجود 31 جنوری کو ہی روپوش ہوگئے تھے دو دن تک اوبڈ کھابڑ راستے پیدل عبور کرنے کے بعد بالآخر جمعہ کی صبح سویرے جامع مسجد شوپیان کے اندر پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔ انہوں نے کہا ملک کی جامع مسجد شوپیان میں آنے کی خبر ملتے ہی پولیس اور ایس او جی نے جامع مسجد کے گردونواح کا گھیراو¿ کرلیا اور جامع مسجد کی جانب نکلنے والی گلیوں اور راستوں پر پہرہ بٹھادیا لیکن اس کے باجود کئی بہادر انسان جن میں درجنوں خواتین بھی شامل تھیں کسی نہ کسی طرح جامع کے اندر پہنچ گئیں جہاں ملک پہلے سے ہی موجود تھے‘۔یاسین ملک نے جامع مسجد کے اندر ہی لوگوں سے خطاب کیا اور نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد لوگوں کی معیت میں جامع مسجد سے نکل کر شوپیان مرکزی چوک کی جانب روانہ ہوگئے۔ تاہم بقول ترجمان سیکورٹی فورسز اور پولیس و ایس او جی جنہوں نے پہلے سے ہی علاقے کا محاصرہ کررکھا تھا فوراً حرکت میں آگئے اور یاسین ملک کو دوسرے فرنٹ لیڈر غلام محمد ڈار کے ہمراہ گرفتار کرلیا اور کسی نامعلوم پولیس تھانے منتقل کردیا ۔ ترجمان کے مطابق اس موقع پر پولیس نے لوگوں پر براہ راست شیلنگ شروع کردی جو شوپیان کی ہر گلی اور ہر محلے میں یاسین ملک کی گرفتاری اور ظلم و جبر کے خلاف احتجاج کررہے تھے ۔ حریت کانفرنس (گ) کے ایک ترجمان نے گیلانی جمعہ کو دوپہر ساڑھے بارہ بجے گھر میں نظربندی کے باوجود مجوزہ شوپیان چلو پروگرام میں شرکت کے لیے اپنی حیدرپورہ رہائش گاہ سے باہرنکلے اور شوپیان کی جانب مارچ شروع کیا، مگر وہاں پر موجود پویس اور سی آر پی ایف کے اہلکاروں نے سڑک پر کاٹنے دار تار بچھا کر ان کو آگے جانے کی اجازت نہیں دی۔ حریت کانفرنس نے پولیس کارروائی کو غیر جمہوری طرز کی غنڈہ گردی قرار دیا اور کہا کہ جموں کشمیر بھارت کی ایک فوجی کالونی ہے اور یہاں صرف اور صرف بندوق کا راج چلتا ہے۔ حریت کانفرنس (ع) کے ایک ترجمان نے کہا کہ شوپیان چلو پروگرام کی پیروی میں میرواعظ نے نظر بندی توڑکر جب شوپیان جانے کی کوشش کی تو فورسزاور پولیس کی بھاری جمعیت نے موصوف کو اپنی رہائش گاہ کے باہر گرفتار کرکے مقامی تھانے میں بند کردیا ۔ گرفتاری سے قبل میرواعظ نے وہاں موجودمیڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اولاً جمعتہ المبارک کے عظیم اور متبرک دن کے موقعہ پر لگاتار دوسری بار مرکزی جامع مسجد سری نگر کو سیل کرکے مسلمانان کشمیر کو اس عبادت گاہ میں نماز جمعہ کی ادائیگی سے روکا گیا ہے جو انتہائی قابل مذمت ہے اور یہ صورتحال مسلمانان کشمیر کے لئے ناقابل برداشت ہے۔ دریں اثنا وادی میں جمعہ کو علیحدگی پسند قیادت کی طرف سے دی گئی ’شوپیان چلو‘ کی کال کے پیش نظر جموں خطہ کے بانہال اور شمالی کشمیر کے بارہمولہ کے درمیان چلنے والی ریل خدمات معطل رکھی گئیں۔ ریلوے حکام کے مطابق خدمات کی معطلی کا اقدام سیکورٹی جوہات کی بناءپر اٹھایا گیا تھا۔ ریلوے کے ایک عہدیدار نے یو این آئی کو بتایا ’ہم نے آج تمام ٹرینیں معطل کردی ہیں‘۔ انہوں نے بتایا ’ہمیں سول اور پولیس انتظامیہ سے ایک ایڈوائزری موصول ہوئی جس میں ہمیں جمعہ کو سیکورٹی وجوہات کی بناءپر تمام ٹرینیں معطل رکھنے کے لئے کہا گیا تھا‘۔ ریلوے ذرائع نے بتایا کہ وادی کشمیر میں ریل خدمات کی معطلی اور بحالی کے فیصلے سول و پولیس انتظامیہ کی ایڈوائزیز پر لئے جاتے ہیں۔ یہ وادی کشمیر میں رواں برس میں آٹھویں مرتبہ ہے کہ جب ریل خدمات کو کلی یا جزوی طور پر معطل کیا گیا ہے۔ وادی میں گذشتہ برس (2017 میں) ریل سروس کو 50 سے زیادہ مرتبہ کلی یا جزوی طور پر معطل رکھا گیا۔ واضح رہے کہ ژھے گنڈ شوپیان میں 24 جنوری کو ہونے والے ایک مسلح تصادم میں دو مقامی جنگجو سمیر احمد ساکنہ ژھے گنڈ شوپیان اور فردوس احمد ساکنہ گنو پورہ شوپیان مارے گئے۔ دونوں مہلوک جنگجو ’حزب المجاہدین‘ سے وابستہ تھے۔ مسلح تصادم کے مقام پر جنگجوو¿ں کی حمایت میں سامنے آنے والوں پر سیکورٹی فورسز نے مبینہ طور پر براہ راست گولیاں اور چھرے چلائے تھے جس کے نتیجے میں 17 سالہ شاکر احمد میر ساکنہ کلام پورہ شوپیان جاں بحق جبکہ دو لڑکیوں سمیت متعدد دیگر زخمی ہوئے تھے۔ مسلح تصادم کے ایک روز بعد یعنی 25 جنوری کو ژھے گنڈ میں بارودی مواد سے اڑائے گئے مکان کا ملبہ ہٹانے کے دوران ایک باروی شیل پھٹ گیا جس کے نتیجے میں 10 سالہ مشرف فیاض شدید طور پر زخمی ہوا ، جو یکم فروری کو شیر کشمیر انسٹی چیوٹ میں دم توڑ گیا۔ ژھے گنڈ مسلح تصادم کے محض تین روز بعد فوجی اہلکاروں نے گنوپورہ شوپیان میں احتجاجی نوجوانوں پر اپنی بندوقوں کے دھانے کھول کر دو جواں سال نوجوانوں کو موقع پر ہی ہلاک جبکہ 9 دیگر کو زخمی کردیا۔شدید زخمیوں میں سے ایک نوجوان 31 جنوری کو شیر کشمیر انسٹی چیوٹ میں دم توڑ گیا۔ مہلوک نوجوانوں جاوید احمد بٹ ، سہیل جاوید لون اور رئیس احمد گنائی کی عمر 20 سے 25 برس کے درمیان تھی۔ دفاعی ترجمان کا کہنا ہے کہ فوجی اہلکاروں نے سیلف ڈیفنس یعنی اپنے دفاع میں گولیاں چلائی تھیں۔ جموں وکشمیر پولیس نے فائرنگ کے اس واقعہ کے سلسلے میں ایک فوجی یونٹ کے خلاف 302 (قتل)، 307 (قتل کی کوشش) اور 336 (زندگی کو خطرے میں ڈالنے)کی دفعات کے تحت پولیس تھانہ شوپیان میں ایف آئی آر درج کرلی ہے۔ مذکورہ ایف آئی آر میں فوج کی 10 گڈوال کے میجر ادتیہ اور ان کے یونٹ کو نامزد کیا گیا ہے۔ یو اےن آئی