رحمت اللہ رونیال
جموں //قانون سازیہ کے ایوان ِ زیریں میں پیر کے روز حزبَ اختلاف نیشنل کانفرنس نے فوجی سربراہ کے ریاست میں تعلیم سے متعلق دئے گئے بیان اورسرینگر میں ’’ محاصرہ و تلاشی مہم ‘‘ کے خلاف شدید احتجاج کیا اور مطالبہ کیا کہ وزیر اعلیٰ اس پر ایوان میں بیان دیں ۔ حکومت کی طرف سے کوئی دلچسپی نہ دکھانے پر این سی ممبران نے عمر عبداللہ کی قیادت میں حکومت کے خلاف نعرے بازی کر تے ہوئے واک آئوٹ کیا ۔ یہ معاملہ صبح وقفہ سوالات شروع ہو تے ہی این سی ممبران نے اٹھایا جب اس کے تمام ممبران اپنی نشستوں سے کھڑے ہو گئے اور مطالبہ کیا کہ حکومت اس پر ایوان میں بیان دے ۔ این سی رکن علی محمد ساگر نے سپیکر کویندر گپتا سے مخاطب ہو تے ہوئے کہا کہ ان کی پارٹی اس سنگین معاملہ پر تحریک التوا لا سکتی تھی لیکن اس صورت میں حکومت کا الزام ہو تا ہے کہ حزبِ اختلاف اایوان کی کارروائی چلانے میں تعاون نہیں کر رہا ہے ۔ انہوں نے فوج کے سر براہ جنرل بپن رائوت کی طرف سے جموں و کشمیر میں تعلیمی نظام پر اٹھائے گئے سوال پر حکومت سے جواب طلب کیا ۔ انہوں نے کہا کہ اگر چہ وزیر تعلیم الطاف بخاری نے درست طور پر فوجی سربراہ کو ریاست کی تعلیمی نظام میں مداخلت سے باز رہنے کو کہا ہے لیکن یہ ایک سنگین مسئلہ ہے جس پر حکومت کو لازمی طور پر جواب دینا چاہئے ۔ ساگر کا کہنا تھا کہ جمہوری نظام میںہر ادارے کا دائرہ کار واضح ہے اور فوجی سربراہ کا اپنے دائرہ کار سے باہر نکل کر اس طرح مداخلت کر نا نا قابلِ قبول ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ایک طرف وزیر تعلیم فوجی سربراہ کے بیان پر معترض ہیں لیکن دوسری طرف حکومت کی دوسری اکائی اپنے ہی وزیر کے موقف کو مسترد کر رہی ہے ۔ بھاجپا ترجمان بریگیڈئر انل گپتا کے ذرائع ابلاغ میں آئے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے ، جس میں انہوں نے وزیر تعلیم کو حقائق تسلیم کرنے اور فوجی سربراہ کے ساتھ محاذ آرائی میں شامل نہ ہونے کا مشورہ دیا تھا ، ساگر نے کہا کہ ایک ہی معاملے پر حکومت کی دونوں اکائیوں کے الگ الگ بیانات آ رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ قطبین کے اتحاد کے بد اثرات نمایاں ہو رہے ہیں۔ فوجی سربراہ کی طرف سے ریاست میں بیک وقت سیاسی اور فوجی اپروچ کے بیان پر بھی سوال اٹھائے اور کہا کہ ایک طرف مرکزی حکومت مذاکرات کار نامزد کر رہی ہے لیکن دوسری طرف اس طرح کا بیان قطعی برعکس تاثر پیدا کر رہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ایک طرف یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ وادی میں حالات امن کی طرف لوٹ رہے ہیں اور دوسری طرف فوجی سربراہ کہتے ہیں کہ جنوبی کشمیر کے بعد اب وسطی اور شمالی کشمیر کی طرف توجہ دی جائے گی جس کا آغاز سرینگر میں ’’ محاصرے اور تلاشی مہم ‘‘ کی صورت میں کر دیا گیا ہے ۔ انہوں نے سوال کیا کہ جموں و کشمیر میں آخر کار حکومت کون چلا رہا ہے ؟ ۔ان کا کہنا تھا کہ موجودہ پی ڈی پی قیادت والی مخلوط حکومت کی کوئی پالیسی یا سمت نہیں ہے ۔انہوں نے کہا کہ وادی میں ایک بار پھر نوے کی دہائی کے سے حالات پیدا کئے جا رہے ہیں اور 17سال بعد کریک ڈائون اور تلاشی مہم جیسی اصطلاحیں ایک بار پھر عملاً نافذ کر دی گئی ہیں ۔ انہوں نے اخبارات میں چھپی ایک خبر کا حوالہ دیا جس میں ایک مرکزی وزیر نے کہا تھا کہ ریاست میں سیکورٹی فورسز کے بنکر تعمیر کرنے کے لئے ساڑھے 4کروڑ روپے دئے گئے ہیں ۔ علی محمد ساگر نے سوال کیا کہ اگر وادی میں امن بحال ہو رہا ہے تو یہ بنکر کس لئے تعمیر ہو رہے ہیں ۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ وزیر اعلیٰ اس معاملے پر ایوان کو اعتماد میں لیں ۔ اس دوران سی پی آئی ایم کے محمد یوسف تاریگامی نے بھی سپیکر سے کہا کہ یہ ایک سنگین معاملہ ہے اور اس پر وزیر اعلیٰ کا بیان لازمی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کہہ رہی ہے کہ وادی میں حالات ٹھیک ہو رہے ہیں اور پنچایت انتخابات منعقد کرانے کی بات کی جا رہی ہے لیکن فوجی سربراہ کا جو بیان آیا ہے ، اس سے ان دعوئوں کی نفی ہو رہی ہے ۔ انہوں نے بھی حکومت سے سوال کیا کہ آخر ریاست میں کون حکومت چلا رہا ہے ۔ اس دوران نیشنل کانفرنس کے عبدالمجید لارمی ، محمد اکبر لون ، میاں الطاف ، کمل اروڑہ وغیرہ اگلی نشستوں پر آ کر وزیر اعلیٰ سے بیان کا مطالبہ کر نے لگے ۔ جب سپیکر کویندر گپتا نے ان کی طرف کوئی توجہ نہ دی اور وقفہ سوالات جاری رکھنے کے لئے کہا تواحتجاج کر رہے چاہِ ایوان میں داخل ہو گئے جہاں انہوں نے ’’ پی ڈی پی سرکار ۔ہائے ہائے ‘‘ ’’ قاتل سرکار ۔ہائے ہائے ‘‘ ’’ کریک ڈائون سرکار ۔ہائے ہائے ‘‘ ’’ ناگ پور سرکار ۔ ہائے ہائے ‘‘ کے نعرے لگانے شروع کر دئے ۔ کچھ دیر تک نعرہ بازی کر نے کے بعد این سی ممبران عمر عبداللہ کی قیادت میں ایوان سے واک آئوٹ کر گئے ۔