رحمت اللہ رونیال
جموں // ممبر اسمبلی خانیار علی محمد ساگر نے مخلوط حکومت پر ریاست جموں و کشمیر کے مالی مفادات کو سودا کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ
وزیر خزانہ ایک زمانہ میں خود جی ایس ٹی کے مخا لف تھے جس کے ثبوت ان کی طرف سے مختلف اخبارات اور رسالوں میں چھپے ہو ئے مضامین ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ تین سال کے دوران ترقیاتی سطح پر تمام دعوے محض سراب ثابت ہوئے ہیں ۔ قانون سازیہ کے ایوان بالا میں بجٹ پر جاری بحث میں حصہ لیتے ہوئے انہوں نے وزیر خزانہ کی طرف سے پیش کئے مالی میزانیہ کو ’’ چلر بجٹ (Chiller Budget) ‘‘ سے تعبیر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس میں مختلف شعبہ جات کے لئے ایک سے اڑھائی کروڑ روپے کی رقم مخٹص کی گئی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر حسیب درابو جیسے ماہر اقتصادیات وزیر خزانہ سے اس طرح کی توقع نہیں تھی ۔ انہوں نے بجٹ کو نوجوان مخالف قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کی فلاح کے لئے محض 20روڑ روپے مختص کئے گئے ہیں جبکہ ریاست میں رجسٹرڈ شدہ ساڑھے 5لاکھ تعلیمیافتہ بے روز گار نوجوان ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ نوجوان طبقے کو یوں نظر انداز کر نا خطرناک ہے اور حکومت کو اس سمت میں اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ میں ریاستی سرکاری ملازمین کے لئے ساتویں تنخواہ کمیشن کی سفارشات لاگو کرنے کا ذکر بڑے فخریہ انداز میں کیا گیا ہے حالانکہ یہ کوئی احسان نہیں کیا گیا بلکہ حکومت نے اسے نا فذ کرنا ہی تھا ۔ انہوں نے کہا کہ سابق این سی قیادت والی مخلوط حکومت نے جب چھٹے تنخواہ کمیشن کی سفارشات نافذ کی تھیں ، اس وقت تنخواہوں میں 45فیصد اضافہ کیا گیا تھا جبکہ اس وقت یہ محض 20فیصد ہے ۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے 60ہزار ڈیلی ویجروں پر ہنگامہ کھڑا کیا تھا جو گزشتہ کئی سال سے بھرتی کئے گئے تھے لیکن اب ان کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ محض 3سال کے دوران مزید 40ہزار ڈیلی ویجر کہاں سے آ گئے ۔ ساگر نے وزیر خزانہ کی طرف سے بجٹ پر خود ستائشی پر بھی چٹکی لی اور اسے حکومت کا بجٹ ہو نے کی بجائے ’’ درابو بجٹ ‘‘ قرار دیا ۔
ساگر نے حکومت پر حزبِ اختلاف کی آواز کو دبانے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ بجٹ پر ٹی وی چینلوں پر صرف حکومتی لوگ پینلوں میں شامل ہو تے ہیں ۔ انہوں نے وزیر خزانہ سے کہا کہ ان جیسے نامور ماہر اقصادیات کو اس رجحان سے باہر نکلنا چاہئے ۔انہوں نے پنچائتوں کے لئے الگ بجٹ کو سابق ’’علیحدہ بجلی بجٹ ‘‘ کی طرح ایک شگوفہ قرار دیا اور کہا کہ حکومت پہلے ہی پنچایوں کو تباہ و برباد کر چکی ہے ۔ انہوں نے مخلوط حکومت کی اکائی بھاجپا کو بھی آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ وہ بھی اس وقت خاموش رہی جب پنچایت راج ایکٹ میں ترمیم کر کے ان بنیادی جمہوری اداروں کو غیر موثر کیا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ ترمیم شدہ ایکٹ کے بعد پنچائتوں کی افادیت ہی ختم کر دی گئی ہے ۔