رحمت اللہ رونیال
جموں // سی پی آئی رکن اسمبلی محمد یوسف تاریگامی کا کہنا ہے کہ جی ایس ٹی (اشیا و خدمات ٹیکس ) کے نفاذ نے نہ صرف جموں وکشمیر کی انفرادیت کو متاثر کیا بلکہ ریاست کی اقتصادیات کو بھی نقصان پہنچایا ہے ۔ انہوں نے کہا ہے کہ تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ زراعت اور اس سے منسلک شعبوں کا ریاست کی مجموعی گھریلو پیداوار میں حصہ کم ہو رہا ہے جس کی بڑی وجہ ان بنیادی شعبوں کو مسلسل نظر انداز کر نا ہے ۔ قانون سازیہ کے ایوان ِ زیریں میں وزیر خزانہ کی طرف سے پیش کئے گئے سال 2017-18کے مالی میزانیہ پر جاری بحث میں حصہ لیتے انہوں نے کہا کہ سال 2017میں دو ’’ بڑی وارداتیں ‘‘ ہوئیں جو ملک کی اقتصادیات کے لئے صدمے سے کم نہ تھیں ۔ انہوں نے کہا کہ جی ایس ٹی کے نفاذ اور نوٹ بندی کے جو مقاصد بتائے گئے تھے ، ان میں سے کوئی بھی پورا نہیں ہوا یعنی لاکھوں کرو ڑ روپے کی سیاہ دولت واپس آئی نہ اقتصادیات میں بہتری آئی ۔ انہوں نے کہا کہ خود ریزرو بنک آف انڈیا نے تسلیم کیا کہ 98فیصدی کرنسی نئی نوٹوں کی شکل میں واپس آ گئی جب کہ جی ایس ٹی نے نہ صرف لوگوں پر نیا بوجھ پڑا بلکہ غیر رسمی شعبہ اور چھوٹے کاروباریوں پر شدید چوٹ پڑی ۔ تاریگامی نے کہا کہ جی ایس ٹی نفاذ کا براہ راست نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اشیا ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پہلے جہاں محصول کے اختیارات حکومت کے پا س تھے ، اب ایک متوازی مرکز قائم کر دیا گیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ تشویشناک امر ہے کہ ریاست کی اقتصادیات آگے نہیں بڑھ رہی ہیں اور نہ ہی اس کی امید ہے ۔ قانون سازیہ کے مشترکہ اجلاس سے گورنر کے خطبہ کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس میں بھی تسلیم کیا گیا ہے کہ ریاست کی مجموعی گھریلو پیدا وار میں زراعت کا حصہ کم ہو رہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ زراعت اور اس سے منسلک شعبہ جات پر ریاست کی70فیصد آبادی کا انحصار ہے اور مویشی پالن ، ہارٹیکلچر ،زعفران کی کاشت کاری، مچھلی بانی، دستکاری اور دیگر بنیادی شعبہ جات نظر اندا ز کر دئے گئے ہیں حالانکہ یہ دیہی اقتصادیات کا اہم حصہ ہیں ۔انہوں نے کہا کہ بجٹ میں جو اعداد و شمار پیش کئے گئے ہیں ان کے مطابق آئندہ مالی سال کے دوران اس میں بڑھوتری کی شرح 6.8فیصد ہو گی جو گزشتہ مالی سال کے تخمینہ یعنی 8.4فیصد سے کم ہے ۔ تاریگامی نے بتایا کہ کسان کے لئے کھیتی بارڑی اب منافع بخش نہیں رہ گئی ہے اور اس کا بیٹا کسان بننے کو تیار نہیں کیوں کہ اس کے لئے اس پیشہ میں ماسوائے خسارے کے کچھ نہیں رہ گیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ میں اس اہم اور بنیادی شعبہ کی صحت ٹھیک کرنے کے لئے کوئی تجاویز نہیںصرف ادھر ادھر کوئی ذکر پایا جا تا ہے۔انہوں نے کہا کہ ایسا محسوس ہو تا ہے کہ یہ اب حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ بجٹ میں اگرچہ صنعتکاروں کو راحت دی گئی ہے جس کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے لیکن کسان کریڈٹ کارڈ کے ذریعے کسانوں نے جو قرضہ جات لئے ہیں ، ان سے متعلق خاموشی اختیار کی گئی ہے ۔ ایم ایل اے کلگام نے کہا کہ جموں و کشمیر ایک فلاحی ریاست ہے لیکن اس کے باوجود سماجی شعبہ کو نظر انداز کر دیا گیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بزرگوں ، جسمانی ناخیز افراد ، بیوائوں کے ہزاروں کیس ضلع دفاتر میں کئی سال سے فائلوں میں بند پڑے ہیں ۔ سرکاری سکولوں میں مڈ ڈے میل فراہم کر نے کے لئے حکومت کی طرف سے جموں اور سانبہ اضلاع میں ایک غیر سرکاری تنظیم ’’ اکشے پترا ‘‘ کو پائلٹ پروجیکٹ سونپنے پر تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ تنظیمیں بڑے کاروباری گھرانوں کی امداد سے چلتی ہیں اور اس کا فائدہ اٹھاتی ہیں ۔انہوں نے کہا کہ اس تنظیم کے خلاف کچھ ریاتوں میں پہلے سنگین الزامات لگ چکے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ریاست میں خوراک کی کمی کا عالمی سطح پر ڈھنڈورہ پیٹنے اور بھیک مانگنے کی بجائے حکومت کو کیرالا اور تمل ناڈو کی طرز پر مڈ ڈے میل سکیم کو استوار کر نا چاہئے ۔ بجٹ تجاویز میںکو آپریٹو بنکوں میں 225کروڑ روپے جھونکنے کی مخلافت کرتے ہوئے تاریگامی نے کہا کہ مذکوری بنک پہلے ہی ناپید ہونے کی دہلیز پر ہیں ۔ انہوں کہا کہ گزشتہ سال جموں و کشمیر بنک کو 500کروڑ روپے بطورِ امداد دینے کے باوجود اس کی حالت سدھرنے کی بجائے مزید بگڑ گئی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ جموں و کشمیر بنک میں حکومت کے 59فیصد حصص ہیں لیکن یہ تعجب کی بات ہے کہ وہ قانون سازیہ جیسے موقر ایوان کو جوابدہ نہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ریاست سے متعلق کوئی بھی معاملہ اس ایوان میں زیر بحث لایا جا سکتا ہے ، پھر جموں و کشمیر بنک قانون سازیہ کو جوابدہ کیوں نہیں ْ۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک طرح سے ممبر قانون سازیہ جیسے موقر ادارے کو غیر مو ثر کرنے کی مترادف ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ جموں و کشمیر بنک کو ان لوگوں کے رحم و کرم پر نہیں رکھا جا سکتا جو اس کی بد حالی کے ذمہ دار ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اگر پردہ داری کی کوئی وجہ نہیں تو حکومت کو اس بنک کے معاملات ایوان میں زیر بحث لانے چاہئیں ۔