نیوز ڈیسک
نئی دہلی //فوج کے سربراہ جنرل بپن راؤت کا کہنا ہے کہ جموں و کشمیر میں اساتذہ طلبا کو دو الگ الگ نقشے پڑھاتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ریاست کے لئے الگ نقشے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ یہاں پر 15جنوری کو منعقد ہونے والے ”آرمی ڈے “ سے قبل ایک پریس کانفرنس سے خطاب کر تے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر چہ چین ایک طاقتور ملک ہے لیکن بھارت بھی کمزور نہیں ۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ چین کی ”پیوپلز لبریشن آرمی “ بھارت پر دباؤ ڈال رہی ہے لیکن فوج سرحدوں پر کسی بھی حفاظتی صورتحال سے نپٹنے کی صلاحیت رکھتی ہیں ۔ پریس کانفرنس کے دوران جنرل راؤٹ نے دعویٰ کیا کہ جموں و کشمیر میں اساتذہ طلبا کو دو نقشے پڑھاتے ہیں جن میں سے ایک بھارت کا اور دوسرا جموں و کشمیر کا ہوتا ہے ۔ انہوں نے کہا ” جموں و کشمیر میں اساتذہ طلبا کو جو پڑھاتے ہیں ،وہ نہیں پڑھایا جا نا چاہئے ۔ سکولوں میں آپ کو دو نقشے ملیں گے جن میں سے ایک بھارت کا دوسرا جموں و کشمیر کا ہوتا ہے ۔ ہمیں دو نقشوں کی کیوں ضرورت ہے ؟ یہ بچوں کو کیا سکھا تا ہے ؟ “۔انہوں نے الزام لگایا کہ ریاست میں غلط معلومات پر مبنی ایک مہم چلائی جارہی ہے جس میں انتہا پسندی کوفروغ دیا جارہا ہے ۔انہوںنے کہا کہ اس میںاسکول ، مدرسے اور مساجد کا بھی رول ہے لہذا اس پر کڑی نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے ۔ ریاست میں سیکورٹی صورتحال اور آپریشن آل آؤٹ کے تحت جنگجوؤں کے خلاف کارروائیوں سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ 2018میں جنگجوؤں کو پوری طرح ختم کر دیا جائے گا ۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال فوج کی توجہ کا مرکز جنوبی کشمیر تھا ، رواں سال یہ شمالی کشمیر کے بارہمولہ ، پٹن ، ہندواڑہ ، کپواڑہ ، سوپور ، لولاب اور بانڈی پورہ کے کچھ حصوں کی طرف ہو گی ۔ جنرل راؤت کا کہنا تھا کہ پہلی ترجیح جنگجووئں کے سرنڈر کو دی جاتی ہے اور انہیں زندہ رہنے کا ایک موقعہ ضرور دیا جاتا ہے ۔انہوںنے کہاکہ کریک ڈاؤن ،محاصروں اور دیگر فوجی کارروائیوں کا مقصد یہ ہے کہ جنگجووںپر دباو¿ بنایا جاسکے اور ایسے میں ان آپریشنوں کے دوران فوج نے کئی بار جانی نقصان بھی اٹھا یا اور یہ نقصان جان بوجھ کر اٹھایا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جنگجوؤں کےخلاف آپریشن میں اب تک 39کو زندہ پکڑا گیا ہے جبکہ دوسو سے زائد کو ہلاک کر دیا گیاہے ۔انہوںنے مزید کہاکہ جب تک سرحد پار سے دراندازی جاری رہےگی تب تک آپریشن جاری رہےگا ۔اس دوران فوجی سربراہ کا مزید کہنا تھا کہ جنوبی کشمیر میں کافی حد تک حالات کنٹرول میں آگئے ہیں اور حالات پر فوج کی گرفت بہتر ہوگئی ہے جبکہ جنگجووئں کی تعداد بھی کافی حد تک گھٹ گئی ہے۔ چین سے متعلق بات کر تے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس میں شک نہیں کہ وہ ( چین ) ایک طاقت ور ملک ہے لیکن بھارت بھی کمزرو نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ملک کی فوج سرحدوں پر کسی بھی قسم کی صورتحال سے نپٹنے کی اہل ہے ۔ فوجی سربراہ کا کہنا تھا ” ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ چین کے ساتھ کشیدگی نہ بڑھے لیکن ہم اپنی زمین پر در اندازی کی ہر گز اجازت نہیں دے سکتے ۔ ہم اپنے پڑوسیوں کو بھی چین کی طرف جانے کی اجازت نہیں دے سکتے “۔ انہوں نے خطہ کے دوسرے مملک کے ساتھ بشمول چین ہمہ جہتی رخ اختیار کرنے کے لئے کہا جس میں سفارتکاری ، فوجی ، حصہ داری وغیرہ شامل ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ چین شمالی ڈوکلام میں کئی سال سے سڑک تعمیر کر رہا ہے لیکن گزشتہ جون میں وہ بھاری مشینری اور اہلکار لے کر آگئے ۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کو بھو ٹان کی طرف سے مداخلت کر نا پڑی جس سے 74روز تک فوجیں ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑی رہیں۔کنٹرال لائن اور بین الاقوامی سرحد پر فائر بندی معاہدہ کی خلاف ورزیوں کا حوالہ دیتے ہوئے فوجی سربراہ کا کہنا تھا کہ جتنا نقصان بھارت کو ہوا اس سے زیادہ پاکستان کا ہوا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اب وہاں سے لگاتار یہ پیغام آتے رہے ہیں کہ فائر بندی معاہدہ کا احترام کرو لیکن بھارت کی طرف سے جارحانہ اقدامات جاری رہیں گے جب تک کہ دراندازی کو بہت زیادہ کم ہوجائے ۔ان کا مزید کہنا تھا پاکستان کو اسی کی زبان میںجواب دیا جائیگا ۔ امریکہ کی طرف سے پاکستان پر عائد پابندیوں پر تبصرہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب تک عملی طور پر کوئی اقدام نہیں اٹھایا جائیگا تب تک کچھ کہا نہیں جاسکتا ۔