یو این آئی
نئی دہلی//نیشنل کانفرنس کے صدر و رکن پارلیمان ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا کہ بھارت اور پاکستان کو پرانے زخموں کو بھول کر آگے بڑھنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ دونوں کے مابین اب تک چار جنگیں ہوئی ہیں اور ان کے ہاتھ تباہی کے سوا کچھ نہیں آیا ہے۔ انہوں نے مذاکرات کو تمام تصفیہ طلب مسائل کا واحد راستہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ بھارت کو پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے لئے اپنی کوششیں جاری رکھنی چاہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت اور پاکستان ایٹمی طاقتیں ہیں اور دونوں ممالک ایک ایٹمی جنگ کے متحمل نہیں ہوسکتے ہیں۔انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ دونوں ممالک کے پاس مذاکرات کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے۔ فاروق عبداللہ نے ان باتوں کا اظہار گذشتہ شام یہاں انڈیا ٹوڈے گروپ کی جانب سے منعقدہ ’ایجنڈا آج تک‘ ایونٹ میں صحافی پونیہ پرسون باجپائی سے بات چیت کے دوران کیا۔ انہوں نے بھارت پاکستان تعلقات میں کسی تیسرے ملک کی ثالثی کی وکالت کرتے ہوئے کہا کہ کرگل کی جنگ ختم کروانے کے لئے امریکہ کو ثالثی کا کردار ادا کرنے کے لئے کہا گیا تھا۔ انہوں نے سوالیہ انداز میں کہا کہ آج دونوں ممالک اپنے دوستوں کا استعمال کیوں نہیں کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جنوبی ایشیا کے 8 ممالک کی تنظیم ’سارک‘ کا مقصد ہند و پاک کے درمیان اختلافات کی وجہ سے فوت ہورہا ہے۔ نیشنل کانفرنس صدر نے پاکستان زیر قبضہ کشمیر کے حوالے سے اپنے موقف پر اٹل رہتے ہوئے کہا کہ بھارت اپنے والے کشمیر کو سنبھال نہیں پاتا ہے اور اگر اس نے سرحد کے اس پار والے کشمیر پر ہاتھ ڈالا تو یہ ایک نئی مصیبت مول لے گا۔ تاہم انہوں نے کہا کہ اگر مرکزی حکومت کے پاس دم ہے تو وہ پاکستان زیر قبضہ کشمیر حاصل کرنے کے لئے آزاد ہے۔ فاروق عبداللہ نے انکشاف کیا کہ سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے اپنے دورہ پاکستان کے دوران وہاں کے حکمرانوں سے کہا تھا کہ ’تم وہ حصہ (پاکستان زیر قبضہ کشمیر) رکھ لو اور ہم یہ حصہ رکھ لیں گے۔ اور ایل او سی کو ٹھیک کریں گے‘۔ انہوں نے ریاست جموں وکشمیر کو خصوصی اختیارات عطا کرنے والی دفعات 370 اور 35 اے کو الحاق کی بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان دفعات کو کوئی بھی طاقت ختم نہیں کرسکتی ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ملک کے سیکولر تانے بانے کو اس وقت خطرہ لاحق ہے۔ فاروق عبداللہ نے دہلی کی تہاڑ جیل میں کشمیری قیدیوں کی مارپیٹ کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر وہ ریاست کے وزیر اعلیٰ ہوتے تو وہ از خود تہاڑ جیل جاکر قیدیوں کی حالت زار کے بارے میں دریافت کرتے۔ صحافی پونیہ پرسون باجپائی نے جب فاروق عبداللہ سے پوچھا کہ واجپائی کے نعرے ’انسانیت، جمہوریت اور کشمیریت‘ سے اب تک کچھ بدلتا ہے، تو ان کا جواب تھا ’انہوں نے(واجپائی نے) یہ بھی کہا تھا کہ دوست بدلے جاسکتے ہیں، پڑوسی نہیں۔ پڑوسیوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات میں ہی آگے بڑھا جاسکتا ہے اور ترقی کی جاسکتی ہے۔ جھگڑے میں رہیں گے تو کوئی ترقی نہیں کرسکے گا۔ بولی سے ہی بات بننی ہے، گولی سے نہیں۔ چار دفعہ جنگ ہوئی ہے۔ لائن آف کنٹرول وہیں پر کھڑی ہے۔ ایل او سی کیا، ہم نے جنگیں کرکے جو حاصل کیا تھا، وہ بھی واپس کردیا ہے۔ پونچھ میں حاجی پیر اور اکھنور میں چھمب اس کی مثالیں ہیں‘۔ انہوں نے کہا ’ہم کہتے ہیں کہ وہ پی او کے ہے۔ وہ کیاں کہتے ہیں ؟ وہ بھی تو ہندوستان مقبوضہ کشمیر کہتے ہیں۔ دونوں تو برابر کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ مجھے اللہ کے واسطے بتائیں کہ کب تک ایسا ہی چلتا رہے گا؟ کب تک ہم یہ تماشہ دیکھتے رہیں گے؟ کب ہم ہوش میں آئیں گے؟ جنگ کوئی راستہ نہیں ہے‘۔ نیشنل کانفرنس صدر نے سابق وزیر اعظم واجپائی کے دورہ پاکستان کے حوالے سے انکشاف کرتے ہوئے کہا ’واجپائی جی جب بس میں پاکستان گئے تو انہوں نے مجھے دہلی بلایا۔ ساتھ نہیں لے گئے کیونکہ اگر میں پاکستان کو مل گیا تو وہ ہماری چمڑی اتار دیں گے۔ واجپائی جی نے مجھے بتایا کہ میں جارہا ہوں۔ میں نے کہا مبارک ہو۔ جب واپس آگئے تو میں نے پوچھا کہ کیا کیا آپ نے پاکستان میں۔ واجپائی جی نے بتایا کہ میں نے وہاں حکمرانوں کو بتایا کہ تم وہ حصہ (پاکستان زیر قبضہ کشمیر) رکھ لو اور ہم یہ رکھ لیں گے۔ اور ایل او سی کو ٹھیک کریں گے‘۔ انہوں نے کہا کہ اگر واجپائی اگلا الیکشن جیت گئے ہوتے تو انہوں نے اس معاملے کو ضرور بہتری کی طرف لے لیا ہوتا۔ انہوں نے کہا’ شاہد یہ ہماری بدقسمتی ہے۔ پتہ نہیں ہمیں کب تک یہ مخمصہ دیکھا ہوگا‘۔ فاروق عبداللہ نے کشمیریوں کو مسئلہ کشمیر پہلا فریق قرار دیتے ہوئے کہا ’جب جنرل پرویز مشرف یہاں آئے تھے اور اشوکا ہوٹل میں کھانے پر ہماری ملاقات ہوئی۔ جب مجھے مشرف صاحب سے ملایا گیا تو کہا گیا کہ یہ تھرڈ پارٹی ہے۔ میں نے کہا کہ جناب میں تھرڈ پارٹی نہیں بلکہ فرسٹ پارٹی ہوں‘۔ انہوں نے پاکستان زیر قبضہ کشمیر پر بات کرتے ہوئے کہا ’اگر آپ لے سکتے ہو ، تو لے لو۔ میں کب روکتا ہوں آپ کو۔ آپ کے پاس طاقتور آرمی، ایئر فورس اور نیوی ہے۔ چار جنگیں آپ نے کرلیں۔ جو علاقہ آپ کے پاس تھا، وہ بھی آپ نے دے دیا۔ کب تک ہمیں مرواو گے‘۔ انہوں نے کہا ’میں 82 سال کا ہوں، میں کوئی سیاسی بات نہیں کرتا۔ میں حقیقت کی بات کرتا ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان زیر قبضہ کشمیر ان کے پاس 70 سال سے ہے۔ دم ہے تو پاکستان زیر قبضہ کشمیر حاصل کرلو۔ فاروق عبداللہ کے پاس وہ دم نہیں ہے‘۔ فاروق عبداللہ نے کہا ’اس کو (بھارتی کشمیر) کو تو آپ سنبھال نہیں پاتے ہو۔ اُس پر ہاتھ ڈالو گے تو ایک نئی مصیبت مول لے لو گے۔ خدا کے واسطے پہلے اس کو تو سنبھال لو‘۔ تاہم انہوں نے کہا کہ بھارت ایک اور جنگ نہیں کرے گا۔ انہوں نے کہا ’میں نہیں سمجھتا انڈیا جنگ کرے گا۔ بات چیت سے ہی معاملہ حل ہوگا، جنگ سے کوئی معاملہ حل نہیں ہوگا۔ مرکزی حکومت کو ایک دن بات کرنی پڑے گی۔ حکومت پاکستان کو بھی بات کرنی پڑے گی۔ اس کے بغیر یہ دونوں ممالک آگے نہیں بڑھ پائیں گے۔ میں وہ دن دیکھنا چاہتا ہوں جب یہاں سے لوگ گاڑی میں بیٹھ کر لاہور، کراچی اور پشاور جائیں گے اور وہاں سے وہ آئیں گے۔ میں یورپ میں گیارہ ممالک گھوما اور کسی نے یہ تک نہیں پوچھا کہ آپ کہاں سے آئے ہو‘۔ فاروق عبداللہ نے کہا کہ ہند و پاک کی دشمنی سے سارک کا مقصد فوت ہورہا ہے۔ انہوں نے کہا ’سارک جب بنا تو میں نے محترمہ گاندھی سے پوچھا کہ اس کا کیا فائدہ ہے۔ تو ان کا جواب تھا کہ ہم یورپی یونین کی طرح ایک جٹ ہوکر ترقی کریں گے۔ رکاوٹ کہاں ہے؟ ہندوستان اور پاکستان۔ دونوں کے درمیان دوستی ہوئی تو سارک بہت ہی طاقتور اور مستحکم ہوگا‘۔ نیشنل کانفرنس صدر نے بھارت پاکستان تعلقات میں کسی تیسرے ملک کی ثالثی کی وکالت کرتے ہوئے کہا ’یاد ہے جب کرگل کی جنگ ہوئی۔ کیا تب امریکہ نہیں آیا۔ کیایہ لوگ امریکہ کے پاس نہیں گئے؟ کیا پاکستان کا وزیر اعظم امریکہ کے پاس نہیں گیا کہ ہندوستان سے کہئے کہ ہم نکل جائیں گے۔ دو ہفتوں کے اندر انہوں نے اپنے تمام ہتھیار واپس لے لئے۔ اور لائن آف کنٹرول واپس آگئی۔ امریکہ تو آیا نا۔ آج ہم دوستوں کا استعمال کیوں نہیں کرسکتے۔ کب تک لڑتے اور جھگڑتے رہو گے۔ تم تو یہاں آباد ہو۔ جاکر ہمارا حال دیکھو۔ سرکار اور سرکار کو بات کرنی پڑے گی۔ آپ اور میں نہیں بات کرسکتے۔ بات چیت کے لئے آپ کو ماحول بنانا پڑے گا۔ ان لوگوں کا استعمال کرنا پڑے گا جن کے ان کے ساتھ رشتے اچھے ہیں‘۔ انہوں نے کہا ’وہ (پاکستان) بھی 70 سال سے کہہ رہا ہے کہ کشمیر ہمارا ہے۔ ہماری شہ رگ ہے۔ ہم بھی کہتے ہیں کہ سارا کشمیر ہمارا ہے۔ کوئی نہ کوئی راستہ نکالنا پڑے گا ۔ اس دنیا میں کوئی چیز ناممکن نہیں ہے‘۔ فاروق عبداللہ نے کہا کہ دونوں ممالک کو پرانے زخموں کو بھول کر آگے بڑھنا ہوگا۔ ان کا کہنا تھا ’آپ کو شرم الشیخ (مصری شہر) میں ہوئے معاہدے کے بارے میں معلوم ہی ہوگا۔ اس پر یہاں زبردست شور اٹھا تھا۔ ہمیں پرانے زخموں کو بھول کرکے آگے بڑھنا ہوگا‘۔ علیحدگی پسندوں کے ساتھ بات چیت سے متعلق ایک سوال کے جواب میں نیشنل کانفرنس صدر نے کہا ’کیا وہ کشمیری نہیں ہیں۔ اگر وہ کشمیری ہیں تو ہندوستانی ہیں یا نہیں؟ تو پھر بات کیوں نہیں کرو گے‘۔ انہوں نے دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کو الحاق کی بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان دفعات کو کوئی بھی طاقت ختم نہیں کرسکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا ’آپ کبھی بھی دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کو ہٹا نہیں سکتے ہو۔ یہ جموں وکشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق کی بنیاد ہے۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ جب کشمیر کے مہاراجہ (ہری سنگھ) نے دستاویز الحاق پر دستخط کیا تو اس نے صرف تینوں چیزوں دفاع، رسل ورسائل اور امور خارجہ پر بھارت کو حق دیا۔ جواہر لعل نہرو نے بیان دیا کہ جموں، کشمیر اور لداخ کے لوگ اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کریں گے۔ وہ آزادانہ اور منصفانہ رائے شماری کے ذریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں گے۔ جب جب رائے شماری کے لئے منتظم کی تقرری عمل میں لائی گئی تو دونوں میں سے کسی ملک نے اس پر اعتراض کیا۔ حالیہ وزیراعظم پی وی نرسمہا راو¿ نے پارلیمنٹ میں بیان دیا کہ آزادی ہم نہیں دے سکتے ہیں، لیکن جہاں تک اٹانومی کا سوال ہے تو حکومت ہندوستان کے لئے آسمان حد ہے۔ کہاں ہے وہ آسمان؟‘۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ملک کے سیکولر تانے بانے کو اس وقت خطرہ لاحق ہے۔ انہوں نے کہا ’آپ بنیادوں کو بھول نہیں سکتے ہیں۔ کیا آپ جمہوری ہندوستان کی بنیادوں کو بھول گئے ہو۔ آج سیکولر انڈیا کو بہت بڑا چیلنج لاحق ہے۔ آج اس ملک کا سیکولر تانہ بانہ خطرے میں ہے‘۔ فاروق عبداللہ نے دہلی کی تہاڑ جیل میں کشمیری قیدیوں کی مارپیٹ کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر وہ ریاست کے وزیر اعلیٰ ہوتے تو وہ از خود تہاڑ جیل جاکر قیدیوں کی حالت زار کے بارے میں دریافت کرتے۔ انہوں نے کہا ’کشمیری کو تہاڑ جیل میں مارا گیا۔ اس کے خون میں لت پت کپڑے عدالت میں دکھائے گئے۔ کیا آپ یہ چاہتے ہو کہ فاروق عبداللہ یہ کہے کہ ایک اور بار مارو۔ کیا انسانی حقوق نہیں ہیں۔ آپ انسان کو قید میں رکھ سکتے ہیں، لیکن مار نہیں سکتے۔ ہماری وزیر اعلیٰ نے داخلہ سکریٹری سے معاملے پر بات کی۔ میں نے کہا کہ آپ خود بھی تہاڑ جیل جاکر وہاں قیدیوں کا حال دیکھ لیجئے۔ میں وزیر اعلیٰ ہوتا تو میں ضرور جاتا۔ میرے وقت میں بھی قیدیوں کو باہر کی جیلوں میں رکھا گیا، مگر کسی پر اس طرح سے حملے نہیں کئے گئے۔ گیلانی (سید علی گیلانی) کو بھی رانچی اور جودھپور میں رکھا گیا تھا‘۔ نیشنل کانفرنس صدر نے کہا کہ بھارت اور پاکستان ایٹمی طاقتیں ہیں اور دونوں ممالک ایک ایٹمی جنگ کے متحمل نہیں ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا ’میں اسی بات پر رکھوں گا کہ بات چیت کے بغیر کوئی راستہ نہیں ہے۔ یہ دونوں ملکوں کے بقا کا سوال ہے۔ آج صورتحال یہ ہے کہ دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں۔ ہم ایک ایٹمی جنگ کے متحمل نہیں ہوسکتے ہیں۔ ہمیں بات چیت کے لئے اپنی کوششیں جاری رکھنی چاہیں‘۔