اڑان نیوز
جموں// انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے سابق سربراہ دنیشور شرما نے کہا کہ ان کی بحیثیت ’مذاکرت کار‘ تقرری وادی کشمیر میں امن کی بحالی اور طویل مدتی حل ڈھونڈ نکالنے کے لئے عمل میں لائی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بحیثیت ’مذاکرات کار‘ ان کا پہلا دورہ جموں وکشمیر بہت اچھا رہا ہے۔ دنیشور شرما نے جمعہ کو یہاں نامہ نگاروں کے ساتھ اپنی مختصر بات چیت میں کہا ’امن کی بحالی اور طویل مدتی حل نکالنے کے لئے ہی مرکزی سرکار نے مجھے بحیثیت مذاکرات کارتعینات کیا ہے‘۔ یہ پوچھے جانے پر ’کیا اگلے دورے کے دوران علیحدگی پسند رہنما آپ سے ملاقات کریں گے‘، تو مذاکرات کار کا جواب تھا ’دیکھتے ہیں۔ یہ تو میرا پہلا دورہ تھا۔ میں یہاں آتا رہوں گا‘۔ دنیشور شرما نے بحیثیت ’مذاکرات کار‘ اپنا پہلا دورہ جموں وکشمیر کو سمیٹے ہوئے جمعہ کو یہاں سرمائی دارالحکومت جموں میں سیاسی، سماجی اور سول سوسائٹی کی قریب 30 وفود سے ملاقات کی۔ وہ ہفتہ کی صبح واپس نئی دہلی روانہ ہوں گے۔ وادی کشمیر میں تین دن گذارنے کے بعد دنیشور شرما جمعرات کو دوپہر کے وقت یہاں پہنچے تھے۔ انہوں نے جمعرات کو یہاں ریاستی گورنر این این ووہرا اور وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کے علاوہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ایک وفد سے ملاقات کی جس کی قیادت پارٹی کے ریاسی صدر ست شرما کررہے تھے۔ جمعہ کے روز بحیثیت ’مذاکرات کار‘ اپنا پہلا دورہ جموں وکشمیر کو سمیٹے ہوئے سرمائی دارالحکومت جموں میں سیاسی، سماجی اور سول سوسائٹی کی قریب 30 وفود سے ملاقات کی۔ ریاستی گیسٹ ہاوس میں ہونے والی ان ملاقاتوں کے دوران بیشتر وفود نے جموں میں مقیم روہنگیا مسلمانوں کے انخلائ، درآمدی اشیاءپر ٹول ٹیکس کی ادائیگی کا سلسلہ ختم کرنے، جموں وکشمیر کے آخری مہاراجہ ’مہاراجہ ہری سنگھ‘ کے جنم دن پر تعطیل کا اعلان کئے جانے اور صوبہ جموں کے ساتھ ہورہی مبینہ ناانصافی کے سلسلے کو روکنے کا مطالبہ کیا۔ دنیشور شرما ہفتہ کی صبح واپس نئی دہلی روانہ ہوں گے۔ سرکاری ذرائع نے یو این آئی کو بتایا ’نامزد مذاکرات سے سیاسی، سماجی اور سول سوسائٹی تنظیموں کی قریب 30 وفود نے ملاقات کی‘۔ ان تنظیموں میں چیمبر آف ٹریڈرس فیڈریشن (جموں)، جموں چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز، جموں ہائی کورٹ بار ایسو سی ایشن،جموں وکشمیر نیشنل پنتھرس پارٹی، وشوا ہندو پریشد، ڈوگرہ صدر سبھا، آل سول سوسائٹی فورم (جموں)، رفیوجیز ایکشن کمیٹی (مغربی پاکستان کے پناہ گزینوں کی تنظیم)، کشمیری پنڈت ایسوسی ایشنز، جموں وکشمیر گردوارہ پربندک بورڈ، پریس کلب آف جموں، ٹرانسپورٹ یونین اور او بی سی مہا سبھا کے نام شامل ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ وادی کشمیر میں تین دن گذارنے کے بعد دنیشور شرما جو کہ انٹیلی جنس بیورو کے سابق سربراہ ہیں، جمعرات کو دوپہر کے وقت یہاں پہنچے۔ انہوں نے جمعرات کو یہاں ریاستی گورنر این این ووہرا اور وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کے علاوہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ایک وفد سے ملاقات کی جس کی قیادت پارٹی کے ریاسی صدر ست شرما کررہے تھے۔ مذاکرات کار دنیشور شرما نے وادی میں قریب 60 وفود اور بعض مین اسٹریمسیاسی لیڈران بشمول نیشنل کانفرنس کارگذار صدر عمر عبداللہ، سی پی آئی ایم لیڈر محمد یوسف تاریگامی، پی ڈی ایف کے حکیم محمد یاسین، ڈی پی این کے غلام حسن میراور عوامی اتحاد پارٹی کے سربراہ انجینئر رشید سے ملاقات کی۔ کانگریس کے وفد نے ریاستی صدر غلام احمد میر کی قیادت میں شرما کے ساتھ سری نگر میں ملاقات کی۔ تاہم علیحدگی پسند خیمے میں سے کسی بھی فرد نے شرما سے ملاقات نہیں کی ۔ اس کے علاوہ وادی کیتقریباً تمام بنیادی سول سوسائٹی جماعتوں، کشمیر بار ایسو سی ایشن اور تجارتی انجمنوں نے بھارتی مذاکرات کار کے ساتھ ملاقات کرنے سے گریز کیا۔ شرما اپنے اگلے دورہ جموں وکشمیر کے دوران خطہ لداخ کا بھی دورہ کریں گے۔ جمعہ کو جموں میں ریاستی گیسٹ ہاوس میں دن بھر چلنے والے ملاقاتوں کے سلسلے کے دوران چیمبر آف ٹریڈرس فیڈریشن (جموں) نے درآمدی اشیاءپر ٹول ٹیکس کی ادائیگی کا سلسلہ ختم کرنے اور جموں وکشمیر کے آخری مہاراجہ ’مہاراجہ ہری سنگھ‘ کے جنم دن پر تعطیل کا اعلان کئے جانے کا مطالبہ کیا۔ جموں چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کی جانب سے جموں میں مقیم روہنگیا مسلمانوں کو نکال باہر کرنے اور ریاست میں پنچایتی انتخابات کے فوری انعقاد کا مطالبہ کیا گیا۔ جموں ہائی کورٹ بار ایسو سی ایشن نے ٹول ٹیکس کے خاتمے، جموں سے روہنگیا مسلمانوں کے انخلائ، مہاراجہ ہری سنگھ کے جنم دن پر تعطیل کا اعلان کئے جانے، کشمیر اور جموں میں اسمبلی حلقوں کی تعداد میں پائے جارہے تفاوت کو دور کرنے کا مطالبہ کیا۔ جموں وکشمیر پنتھرس پارٹی نے جموں کے ساتھ ہورہی مبینہ ناانصافی کا ذکر کرتے ہوئے جموں اور کشمیر کو الگ الگ ریاست کا درجہ دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ ویشوا ہندو پریشد (وی ایچ پی) نے بھارت اور جموں وکشمیر کے رشتے میں دفعہ 35 اے اور دفعہ 370 کو رکاوٹیں قرار دیتے ہوئے ان کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ڈوگرہ صدر سبھاو آل سول سوسائٹی فورم (جموں) نے علیحدگی پسندوں کے خلاف این آئی اے کی چھاپہ مار کاروائیوں کی طرز پر مین اسٹریم سیاسی لیڈران کے خلاف کاروائیاں عمل میں لانے جبکہ مغربی پاکستان کے پناہ گزینوں کی تنظیم ’رفیوجیز ایکشن کمیٹی‘ نے ریاستی شہریت کے حقوق دلانے یا ملک کے کسی دوسری ریاست میں منتقل کرنے کے مطالبے دنیشور شرما کے سامنے رکھیں۔ کشمیری پنڈت ایسوسی ایشنز نے کشمیری پنڈتوں کی یک وقتی کشمیر واپسی یقینی بنانے اور جموں وکشمیر گردوارہ پربندک بورڈ نے ریاست میں مقیم سکھوں کو اقلیت کا درجہ دینے کا مطالبہ کیا۔ چیمبر آف ٹریڈرس فیڈریشن (جموں) کے صدر نیرج آنند کی قیادت والی وفد نے دنیشور شرما کے ساتھ ملاقات کے بعد نامہ نگاروں کو بتایا ’جموں جو آج تک اپنے قوم پرست موقف پر کھڑا رہا ہے، اسی کا ہم نے اعادہ کیا ۔ ہمیں گذشتہ دنوں کچھ معاملات کو لیکر ایجی ٹیشن کرنی پڑی اور جموں بند کی کال بھی دینی پڑی۔ ہم نے دنیشور شرما کے سامنے دو اہم معاملات کو اٹھایا ہے۔ جموں نے ہمیشہ امن کا ساتھ دیا ہے۔ جموں نے ہمیشہ قوم پرست قوتوں کو مضبوط کیا ہے‘۔ نیرج نے دنیشور شرما کے ساتھ درآمدی اشیاءپر ٹول ٹیکس کی ادائیگی اور مہاراجہ ہری سنگھ کے جنم دن پر تعطیل کے معاملات اٹھانے کی بات کرتے ہوئے کہا ’ہم نے دوسری ریاستوں سے برآمد ہونے والی اشیاءپر ٹول ٹیکس کی ادائیگی کا سلسلہ بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس کی وجہ سے لوگوں کو چیزیں مہنگی داموں خریدنی پڑرہی ہیں۔ ہم نے ان سے کہا کہ وہ اپنے اثرورسوخ کا استعمال کرکے اس کو ختم کروائے۔ ہم نے مہاراجہ ہری سنگھ جی جو کہ اہلیان جموں کے جذبات کے ساتھ جڑا ہوا معاملہ ہے، کے جنم دن پر تعطیل کا اعلان کئے جانے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ یہ جموں کے تمام لوگوں کا مطالبہ ہے۔ہم امید ہے کہ جب یہ معاملے مرکزی سرکار کی نوٹس میں لائے جائیں گے تو مثبت نتائج برآمد آئیں گے۔ ریاستی سرکار ہمارے جذبات کو سمجھ نہیں پارہی ہے۔ دنیشور شرما جی نے ہمیں یقین دلایا کہ ان معاملات پر جلد از جلدغور کیا جائے گا‘۔ جموں چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے صدر راکیش گپتا کی قیادت والی وفد نے جموں میں مقیم روہنگیا مسلمانوں کو نکال باہر کرنے اور ریاست میں پنچایتی انتخابات کے فوری انعقاد کا مطالبہ کیا ہے۔ راکیش گپتا نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ’ہم نے روہنگیا پناہ گزینوں کو جموں سے نکال باہر کرنے کی بات کی۔ ہم نے ان کو واضح الفاظ میں بتایا کہ اگر ان کی ملک بدری کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے تب تک ان کی شناخت کرکے ان کو ایک جگہ پر محدود کیا جائے۔ ان کو جموں کی اصل آبادی کے ساتھ مکس نہ ہونے دیا جائے‘۔ انہوں نے مزید کہا ’ ہم نے دنیشور جی کو بتایا کہ چند کچھ خاندان ہیں جو ریاست پر راج کررہے ہیں۔ اگر یہ نظام نہ بدلا گیا تو حالات مزید خراب ہوسکتے ہیں۔ ہم نے ان سے مطالبہ کیا کہ ریاست میں پنچایت الیکشن عنقریب کئے جانے چاہیے تاکہ عام لوگوں کو بااختیاری کا احساس ہو‘۔ جموں ہائی کورٹ بار ایسو سی ایشن کے صدر ایڈوکیٹ بی ایس سلاتھیا کی قیادت والی وفد نے ٹول ٹیکس کے خاتمے، جموں سے روہنگیا مسلمانوں کے انخلائ، مہاراجہ ہری سنگھ کے جنم دن پر تعطیل کا اعلان کئے جانے، کشمیر اور جموں میں اسمبلی حلقوں کی تعداد میں پائے جارہے تفاوت کو دور کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ایڈوکیٹ سلاتھیا نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ مذاکرات کار کا وفود کو ملاقات کے لئے بلانے کا طریقہ صحیح نہیں تھا۔ انہوں نے کہا ’جس طریقے سے ہمیں بلایا گیا، اس پر ہم نے مایوسی کا اظہار کیا۔ ہم نے ان سے بتایا کہ جموں میں رہنے والے لوگوں کی اکثریت قوم پرست ہے۔ یہاں لوگوں کو بلانے اور کشمیر میں گھر گھر جاکر علیحدگی پسندوں کو بلانے کے آپ کے اپروچ میں فرق نظر آرہا ہے۔ انہوں نے ہمیں جو دعوت نامہ بھیجا تھا نہ اس میں آرگنائزیشن کا نام لکھا ہے اور نہ آرگنائزیشن کے کسی عہدیدار کا۔ ہمیں ان کا مدعو کرنے کا طریقہ بالکل صحیح نہیں لگا۔ اگر انہوں نے اگلی دفعہ بھی ایسا ہی کیا تو شاہد ہی ہم ملاقات کے لئے آئیں گے‘۔ انہوں نے کہا ’ہم نے مہاراجہ جی کے جنم دن پر چھٹی اور ٹول ٹیکس کے نظام کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔ ہم نے دفعہ 35 اے کا معاملہ بھی اٹھایا اور کہا کہ اسے غیرآئینی طریقے سے بھارتی آئین میں شامل کیا گیا ہے۔ ہم نے کشمیر اور جموں میں اسمبلی حلقوں میں تفاوت دور کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔ دراصل کشمیری سیاستدان نہیں چاہتے ہیں کہ صوبہ جموں بااختیار ہو۔ کیونکہ جموں میں ملک مخالف آواز نہیں اٹھتی ہے۔ ہم نے روہنگیا پناہ گزینوں کا معاملہ بھی اٹھایا۔ برما سے لوگ آکر یہاں رہنے لگے ہیں۔ کچھ ٹیرر فنڈڈ آرگنائزیشن انہیں سپورٹ کررہی ہیں۔ ہم نے کہا کہ اگر مرکزی سرکار کے پاس روہنگیا پناہ گزینوں کو ملک بدر کرنے کا کوئی منصوبہ ہے ، تو وہ اس پر فوراً سے پیشتر عمل درآمد کرے۔ ریاستی حکومت روہنگیا پناہ گزینوں کو جموں سے نکال باہر کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی ہے۔ ہم نے ان سے کہا کہ روہنگیا لوگوں کو یہاں بسائے رکھنے سے جموں خطہ کا امن درہم برہم بھی ہوسکتا ہے‘۔ پنتھرس پارٹی کے ہرش دیو سنگھ نے پارٹی وفد کی دنیشور شرما کے ساتھ ملاقات کے بعد نامہ نگاروں کو بتایا ’ ہم نے مذاکرات کار سے کہا کہ جموں کے ساتھ جو امتیازی سلوک ہورہا ہے، اس میں اس مخلوط حکومت کے معرض وجود میں آنے کے بعد اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ اس کا صرف ایک حل ہے اور وہ یہ ہے کہ جموں اور کشمیر کو الگ الگ ریاستوں کا درجہ دیا جائے‘۔ وی ایچ پی کی وفد نے ریاستی صدر لیلا کرن شرما کی قیادت میں مذاکرات کار دنیشور شرما نے وادی میں قریب 60 وفود اور بعض مین اسٹریم سیاسی لیڈران بشمول نیشنل کانفرنس کارگذار صدر عمر عبداللہ، سی پی آئی ایم لیڈر محمد یوسف تاریگامی، پی ڈی ایف کے حکیم محمد یاسین، ڈی پی این کے غلام حسن میراور عوامی اتحاد پارٹی کے سربراہ انجینئر رشید سے ملاقات کی۔ کانگریس کے وفد نے ریاستی صدر غلام احمد میر کی قیادت میں شرما کے ساتھ سری نگر میں ملاقات کی۔ تاہم علیحدگی پسند خیمے میں سے کسی بھی فرد نے شرما سے ملاقات نہیں کی ۔ اس کے علاوہ وادی کی تقریباً تمام بنیادی سول سوسائٹی جماعتوں، کشمیر بار ایسو سی ایشن اور تجارتی انجمنوں نے بھارتی مذاکرات کار کے ساتھ ملاقات کرنے سے گریز کیا۔ شرما اپنے اگلے دورہ جموں وکشمیر کے دوران خطہ لداخ کا بھی دورہ کریں گے۔ دنیشور شرما نے سری نگر میں قیام کے تیسرے دن بدھ کو علیحدگی پسندوں سے ملاقات کی خواہش کا برملا اظہار کیا۔ انہوں نے نامہ نگاروں کے ساتھ اپنی مختصر بات چیت کے دوران کہا تھا ’میں (حریت کانفرنس) سے ملاقات کی پوری کوشش کریں گے‘۔ اس بیان سے قبل نیشنل کانفرنس کے کارگذار صدر نے نامہ نگاروں کے ساتھ بات چیت کے دوران مذاکرات کار دنیشور شرما سے کہا تھا کہ وہ گیسٹ ہاوس میں بیٹھ کر لوگوں کا انتظار نہ کریں بلکہ ازخود لوگوں کے پاس جائیں۔ ظاہری طور پر عمر عبداللہ چاہتے ہیں کہ دنیشور شرما از خود علیحدگی پسند قائدین کے دروازے کھٹکھٹائیں۔ عمر عبداللہ کے الفاظ کچھ یوں تھے ’اگر آپ (دنیشور شرما) گیسٹ ہاوس میں بیٹھ کر لوگوں کا انتظار کرتے رہیں گے تو یہ سلسلے آگے نہیں بڑھے گا۔ میں امید کرتا ہوں کہ اگلی بار جب وہ آئیں گے ، ان کی کوششوں میں ہمیں اضافہ دیکھنے کو ملے گا۔ ہم سب چاہتے ہیں کہ یہ مسئلہ بات چیت کے ذریعے حل ہو۔ اور یہاں کے لوگ امن اور سکون کی فضا میں اپنی زندگی گذر بسر کرنا چاہتے ہیں‘۔ مرکزی سرکار نے گذشتہ ماہ دنیشور شرما کو ’مسئلہ کشمیر‘ کے فریقین سے بات چیت کی ذمہ داری سونپ دی۔ اس سے پہلے مرکز میں یو پی اے سرکار نے ’کشمیر‘ پر بات چیت کے لئے تین مذاکرات کاروں دلیپ پڈگاونکر، رادھا کمار اور ایم ایم انصاری کو تعینات کیا تھا۔ اگرچہ انہوںنے اپنی سفارشات پر مبنی ایک تفصیلی رپورٹ وزیر داخلہ میں پیش کی تھی، تاہم قریب 6 سال کا عرصہ گذر جانے کے باوجود ان سفارشات پر کوئی عمل درآمد نہیں ہوا ہے۔ دنیشور شرما سے ملاقات کے بعد نامہ نگاروں کو بتایا ’جموں اور لداخ کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جارہا ہے۔ ہم نے انہیں بتایا کہ جموں وکشمیر بھارت کا اٹوٹ حصہ ہے۔ لیکن دفعہ 35 اے اور دفعہ 370 اس میں رکاوٹیں ہیں‘۔ مغربی پاکستان کے پناہ گزینوں کی تنظیم ’رفیوجیز ایکشن کمیٹی‘ نے ریاستی شہریت کے حقوق دلانے یا ملک کے کسی
دوسری ریاست میں منتقل کرنے کے مطالبہ کیا ہے۔ تنظیم کے صدر لوبھا رام گاندھی نے نامہ نگاروں کو بتایا ’ہم نے ان سے کہا کہ ہم گذشتہ 70 برسوں سے یہاں رہ رہےہیں۔ ہم اتنے بدقسمت لوگ ہیں جن کو اپنے ہی دیش میں بیگانوں کی زندگی گذارنی پر مجبور کیا جارہا ہے۔ پچھلے 70 سال یہاں رہنے کے باوجود ہمیں یہاں اسمبلی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا حق نہیں ملا۔ یہاں کی شہریت کا حق ہمیں نہیں ملا۔ اس کی وجہ سے ہمارے بچے در در کی ٹھوکر کھا رہے ہیں۔ نہ اسکولوں میں ایجوکیشن ملتی ہے اور نہ تکنیکی ایجوکیشن۔ بھارت کے شہری ہونے کے ناطے جو نوکریاں ہمیں ملتی تھیں، وہ بھی بند ہوچکی ہیں۔ ہم نے ان سے کہا کہ جب تک ہمیں جموں وکشمیر کی شہریت نہیں دی جاتی ہے تب تک مرکز میں جتنی بھی اسکیمیں ہیں، ان کا ہمیں فائدہ ملنا چاہیے’۔ انہوں نے مزید کہا ’ہم نے دنیشور جی سے کہا کہ آپ سے پہلے بھی بہت مذاکرات کار آئے، سب نے ہماری باتیں سنیں لیکن دھیان کسی نے نہیں دیا۔ ہمارا معاملہ ایک انسانی مسئلہ ہے۔ ہم نے ان سے کہا کہ اگر آپ ہمیں یہاں کی شہریت نہیں دلاسکتے تو بھارت اتنا بڑھا ہے ، ہمیں کہیں بھی بسائے، ہم منتقل ہونے کے لئے تیار ہیں۔ میں وزیر اعظم مودی سے گذارش کرتا ہوں کہ وہ ہمیں معاوضہ اور جموں وکشمیر کے اسمبلی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا حق دلا دیں۔ ایسا نہیں کیا گیا تو ایسا ہی ہوگا جیسے کشمیر میں ہوا۔ ہمارے نوجوان بھی کشمیری نوجوانوں کی طرح بندوقیں اٹھانے پر مجبور ہوجائیں گے ۔ یہ بعد میں مرکزی اور ریاستی دنوں سرکاروں کے لئے سر درد ثابت ہوگا‘۔ جموں وکشمیر گردوارہ پربندک بورڈ نے ریاست میں مقیم سکھوں کو اقلیت کا درجہ دینے کا مطالبہ کیا۔ تنظیم کے صدر نے نامہ نگاروں کو بتایا ’ستر سال سے ہمارے ساتھ ناانصافی ہورہی ہے۔ ہماری کوئی بھی مانگ آج تک پوری نہیں کی گئی۔ ہمارے 40 ہزار لوگ قبائلیوں سے لڑتے ہوئے مارے گئے۔ مسئلہ کشمیر کے حل میں ہمیں اعتماد میں ہی نہیں لیا جاتا ہے۔ ہر شعبے میں ہمارے ساتھ امتیازی سلوک ہورہا ہے۔ ہمیں اس طرح سے بسایا گیا ہے کہ ہم اپنا نمائندہ بھی چن نہیں پاتے ہیں۔ آج تک ہمیں اقلیت بھی قرار نہیں دیا گیا‘۔ کشمیری پنڈت ایسوسی ایشنز کے گرداری لال رینہ جو کہ ایم ایل سی بھی ہیں، نے دنیشور شرما سے ملاقات کے بعد نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا ’ہم نے ان مسائل کو دنیشور جی کی نوٹس میں لایا جو ہم گذشتہ 27 برسوں سے جیل رہے ہیں۔ ہم نے اپنی یک وقتی واپسی کا مطالبہ دہرایا ہے۔ ہم نے گوجر یا پہاڑی بورڈ کے طرز پر پنڈت ویلفیئر بورڈ کے قیام کا مطالبہ کیا ہے۔ ہماری جائیدادوں پر ناجائز طریقے سے قبضہ کیا گیا ہے۔ ہم نے شرما جی سے کہا کہ ہماری جائیدادوں پر سے ناجائز قبضے ہٹنے چاہیے۔ ہم نے مطالبہ کیا ہے کہ کشمیری پنڈتوں کے لئے اعلان کردہ روزگار پیکیج پر فوری عمل درآمد ہونی چاہیے‘۔ ڈوگرہ صدر سبھاو آل سول سوسائٹی فورم (جموں) نے علیحدگی پسندوں کے خلاف این آئی اے کی چھاپہ مار کاروائیوں کی طرز پر مین اسٹریم سیاسی لیڈران کے خلاف کاروائیاں عمل میں لانے کا مطالبہ کیا ہے۔ وفد نے دنیشور شرما کے ساتھ ملاقات کے بعد نامہ نگاروں کو بتایا ’ہم نے ان سے کہا کہ بھارت سرکار جو پیسے دیتا ہے، وہ کہاں جاتے ہیں۔ اس کی انکوائری ہونی چاہیے۔ کیونکہ ہمیں لگتا ہے کہ جو پیسہ پاکستان سے آتا ہے ، اس سے وہ اپنا کام نکال رہےہیں۔ یہاں لوگوں کا صرف استحصال کیا گیا۔ آج صورتحال یہاں تک پہنچی ہے کہ بات پاکستان بھارت کی نہیں رہی بلکہ آج کشمیر بمقابلہ کشمیربنادیا گیا۔ علیحدگی پسندوں کے خلاف جو چھاپہ مار کاروائیاں انجام دی جارہی ہیں، اسی طرح کی کاروائیاں مین اسٹریم سیاسی جماعتوں کے خلاف بھی کی جانی چاہیں۔ تاکہ یہ معلوم ہو کہ انہوں نے کتنا پیسہ بنایا ہے۔ ہم نے ان سے کہا کہ ہمیں کرپشن سے پاک حکمرانی چاہیے‘۔ واضح رہے کہ دنیشور شرما نے سری نگر میں قیام کے تیسرے دن بدھ کو علیحدگی پسندوں سے ملاقات کی خواہش کا برملا اظہار کیا۔ انہوں نے نامہ نگاروں کے ساتھ اپنی مختصر بات چیت کے دوران کہا ’میں (حریت کانفرنس) سے ملاقات کی پوری کوشش کریں گے‘۔ اس بیان سے قبل نیشنل کانفرنس کے کارگذار صدر نے نامہ نگاروں کے ساتھ بات چیت کے دوران مذاکرات کار دنیشور شرما سے کہا تھا کہ وہ گیسٹ ہاوس میں بیٹھ کر لوگوں کا انتظار نہ کریں بلکہ ازخود لوگوں کے پاس جائیں۔ ظاہری طور پر عمر عبداللہ چاہتے ہیں کہ دنیشور شرما از خود علیحدگی پسند قائدین کے دروازے کھٹکھٹائیں۔ عمر عبداللہ کے الفاظ کچھ یوں تھے ’اگر آپ (دنیشور شرما) گیسٹ ہاوس میں بیٹھ کر لوگوں کا انتظار کرتے رہیں گے تو یہ سلسلے آگے نہیں بڑھے گا۔ میں امید کرتا ہوں کہ اگلی بار جب وہ آئیں گے ، ان کی کوششوں میں ہمیں اضافہ دیکھنے کو ملے گا۔ ہم سب چاہتے ہیں کہ یہ مسئلہ بات چیت کے ذریعے حل ہو۔ اور یہاں کے لوگ امن اور سکون کی فضا میں اپنی زندگی گذر بسر کرنا چاہتے ہیں‘۔ قابل ذکر ہے کہ مرکزی سرکار نے گذشتہ ماہ دنیشور شرما کو ’مسئلہ کشمیر‘ کے فریقین سے بات چیت کی ذمہ داری سونپ دی۔ اس سے پہلے مرکز میں یو پی اے سرکار نے ’کشمیر‘ پر بات چیت کے لئے تین مذاکرات کاروں دلیپ پڈگاونکر، رادھا کمار اور ایم ایم انصاری کو تعینات کیا تھا۔ اگرچہ انہوںنے اپنی سفارشات پر مبنی ایک تفصیلی رپورٹ وزیر داخلہ میں پیش کی تھی، تاہم قریب 6 سال کا عرصہ گذر جانے کے باوجود ان سفارشات پر کوئی عمل درآمد نہیں ہوا ہے۔